افغانستان: نو سو جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے
8 فروری 2011میجرجنرل فلپ جونز نے کہا ہے کہ مقامی جنگجوؤں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے کی کوششیں صحیح معنوں میں تین یا چار ماہ قبل شروع ہوئی تھی۔ افغان حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے اس پروگرام میں معاونت کرنے والے نیٹو کے اعلیٰ فوجی اہلکار جونز نے کہا ہے کہ مرکزی معاشرے کا دھارا بننے کی خواہش رکھنے والے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ ایک طویل عمل کا ابتدائی حصہ ہے۔
جونز نے پیر کو کابل منعقدہ ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا،’ یہ بہت سخت اور پیچیدہ عمل ہے۔‘ ان کے مطابق افغانستان میں بیس سالہ جنگ اور دس سالہ بغاوت کے بعد شروع کیا گیا یہ پروگرام مشکلات سے پُر ہے۔
نیٹو اہلکار جونز نے اس پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ افغانستان میں خون خرابے کو روکنے کے لیے ہزاروں ایسے جنگجوؤں کو ہتھیار پھینکنے ہوں گے، جو یا تو طالبان باغیوں کے نظریات پرعمل کرتے ہیں یا جو دیگر چھوٹے عسکری گروہوں کا حصہ ہیں۔
میجرجنرل جونز کے مطابق جو جنگجو ہتھیار ڈالتے ہیں، انہیں دیگر عسکری گروہوں سے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے درجنوں جنگجو ہیں جنہوں نے افغان معاشرے کا حصہ بنتے ہوئے شدت پسندی کا راستہ ترک کیا تو طالبان باغیوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
جونز نے کہا کہ طالبان باغیوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو کوئی بھی افغان حکومت کے ساتھ ایسے کسی پروگرام کا حصہ بننے کی کوشش کرے گا تو اس کی سزا موت ہو گی۔
افغان حکومت نے غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینکنے والے اعتدال پسند طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک خصوصی پروگرام شروع کیا ہے۔ افغان حکومت کے اس پروگرام میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو بھی معاونت کر رہا ہے۔
دوسری طرف طالبان باغیوں کا مطالبہ ہے کہ جب تک غیرملکی افواج ملک سے واپس نہیں چلی جاتیں، تب تک افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفےٰ