افغانستان پاکستانی تاجروں کے لیے کتنی بڑی منڈی ہے؟
5 اکتوبر 2023حکومت پاکستان کے کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے ایک نوٹیفکیشن میں یہ دس فیصد فیس اشیاء کی حقیقی قیمت پر عائد کی گئی ہے، جس کی ادائیگی پیشگی کرنا ہو گی۔ تاجر برادری کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھے گی، جس سے تجارت کو بھی نقصان ہو گا اور پاکستان کے لیے انتہائی منافع بخش افغان مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ بھی ممکنہ طور پہ کم ہو سکتا ہے۔ یہ تجارتی معاملات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ افغانستان وسطی ایشیا کے لیے بھی دروازہ ہے، جہاں پاکستان ادویات کے علاوہ دوسری کئی اشیاء بھیج رہا ہے، جن سے ملکی معیشت کو فائدہ ہو رہا ہے۔
افغانستان پاکستان کے لیے اہم مارکیٹ
معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ افغان مارکیٹ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں اس وقت انرجی سستے طریقے سے پیدا کرنے کے لیے سستا کوئلہ چاہیے، جو ہم افغانستان سے بہت کم قیمت پر منگوا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم افغانستان کو بہت ساری اشیاء بھیج بھی رہے ہیں۔‘‘
شاہد محمود کے خیال میں اگر افغانستان میں تعمیر نو کا کام شروع ہو جائے تو پاکستان کے کاروباری افراد کے لیے بہت ساری سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔
پاک افغان باہمی تجارت میں کمی کے اسباب کیا ہیں؟
سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر منظور الہی کا کہنا ہے کہ اگر ہم افغانستان سے تعلقات بہتر کر لیں تو ہماری باہمی تجارت، جو ابھی تقریبا 1400 ملین ڈالر ہے، وہ چار سے پانچ بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے، ''جبکہ وسطی ایشیائی ممالک کو ہم تین سو سے چھ ملین ڈالرز کے قریب کی اشیاء بھیجتے ہیں، اس حجم کو بھی بہت حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘
منظوری الہی کے مطابق افغانستان کے راستے ہم وسطی ایشیائی ممالک سے گندم، کھاد، گیس اور دوسری کئی اشیا منگوا سکتے ہیں، ''افغانستان کے ذریعے یہ تجارت اس لئے اہم ہے کہ یورپ یا امریکہ سے اشیا منگوانے کے لئے ایل سی کھولنا پڑتی ہے اور مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، جب کہ افغانستان کے ذریعے یہ مال وسطی ایشیا سے چار دن میں پہنچ سکتا ہے اور ادائیگی کے طریقے ڈالر کے علاوہ دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کی افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بارٹر نظام کے تحت تجارت
ٹرانزٹ فیس پر تشویش
منظور الہی شاہد محمود کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان افغانستان سے سستا کوئلہ درآمد کر رہا ہے، جو بجلی پیدا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ تاہم ان کے خیال میں ٹرانزٹ فیس کے عائد ہونے سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے، جس پر ہمیں تشویش ہے، ''روزانہ پانچ ہزار سے 10 ہزار ٹن کوئلہ افغانستان سے درآمد کیا جا رہا ہے لیکن اگر پاکستانی ٹرانزٹ فیس کے جواب میں وہ بھی کوئلے پرکوئی ٹیکس لگا دیں، تو ہمیں پھر انڈونیشیا سے انتہائی مہنگا کوئلہ منگوانا پڑے گا، جس سے پاکستان کے زر مبادلہ پہ بہت اثر پڑے گا۔‘‘
فیصلے کا خیر مقدم
تاہم تاجر برادری کے کچھ افراد اس ٹرانزٹ فیس کے عائد کرنے کو صحیح فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر اور معروف صنعت کار احمد چنائے کا کہنا ہے کہ اس ٹرانزٹ فیس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر ایک لاکھ ڈالر کی ٹرانزٹ جاتی ہے تو اس میں پاکستان کو دس ہزار ڈالر ملیں گے۔ اس طرح کی اطلاعات تھیں کہ دوسرے ممالک سے ٹرانزٹ کے نام پہ اشیاء افغانستان جاتی تھیں اور وہ پھر پاکستان کو بھیج دی جاتی تھی، جس سے پاکستان کو نقصان ہوتا تھا۔‘‘
تاہم منظور الہی کا اصرار ہے کہ یہ انتہائی نامناسب قدم ہے اور اس سے پاکستان کی تاجر برادری کو نقصان ہو گا، ''جب ہم یہاں سے اشیاء افغانستان لے کے جاتے ہیں تو وہ 32 ہزار افغانی روپے اور اس کے علاوہ 300 امریکی ڈالر لیتے ہیں، جو مجموعی طور پر ایک ڈیڑھ لاکھ روپے بنتے ہیں جبکہ پاکستان ایک لاکھ ڈالر پہ تقریبا 10 ہزار ڈالر مانگ رہا ہے، جو 29 لاکھ روپے کے قریب بنتے ہیں اور یہ افغان امپورٹر کو ٹرانزٹ کی مد میں دینا پڑیں گے۔ اگر پاکستان نے یہ فیس ختم نہ کی تو وہ چین یا بھارت سے ایران کے راستے اشیاء درآمد کر لیں گے، جس سے ہمیں نقصان ہو گا اور ہمارے پانچ ہزار کے قریب کنٹینر، جو نومبر سے فروری کے دوران وسطی ایشیا جاتے ہیں، ان کا حجم بھی بہت سُکڑ جائے گا۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تجارت کا حجم
ٹریڈنگ اکنامکس نامی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان نے سن دو ہزار اکیس میں تقریباً 833 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ افغانستان کو کیں۔ پاکستان افغانستان کو سیریلز، ویجیٹیبل فیٹس، آئل، مویشی، نمک، سلفر، ارتھ اسٹون، پلاسٹر، لائم، سیمنٹ، ادویات، پلاسٹک، لکڑی، برقی الات، اسٹیل، لوہا اور صابن سمیت کئی اشیا بھیجتا ہے۔ جبکہ افغانستان پاکستان کو پھل، خشک میوہ جات، سبزیاں، کاٹن، قالین، خام کھالیں، جانوروں کے بال، قیمتی پتھر، تمباکو اور دیگر اشیاء برآمد کرتا ہے۔