افغانستان: چھ ماہ میں پانچ ہزار شہری ہلاک
5 اگست 2015اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران مسلح تصادم کے واقعات میں تقریباً پانچ ہزار عام شہری ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس بین الاقوامی دستوں کے انخلاء کے بعد سے مختلف گروہوں کے دوران جھڑپوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ مزید یہ کہ ہلاکتوں کی یہ شرح 2014ء کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ایک تشویشناک پہلو یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ان جھڑپوں کے دوران عام شہریوں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے متعدد واقعات میں سرکاری دستے بھی ملوث پائے گئے ہیں تاہم اس کے باوجود مجموعی طور پر ہونے والی زیادہ تر ہلاکتوں کے ذمہ دار عسکریت پسند ہی ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی سربراہ ڈانیئیلا بیل کہتی ہیں:’’افغانستان کے تنازعے کے تمام فریقین کو شہریوں کو پہنچنے والے اس نقصان کو روکنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے فیصلے کرنے چاہیں۔‘‘ ان کے بقول ان چھ ماہ کے دوران ستر فیصد بے گناہ شہریوں کی ہلاکت میں طالبان ملوث ہیں۔ مزید یہ کہ زیادہ تر جانیں مسلسل جاری خود کش حملوں اور پہلے سے نصب کیے جانے والے بارودی مواد کی زد میں آنے کی وجہ سے ضائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ بموں کو زیادہ ہلاکت خیز بنانے کے لیے ’پریشر پلیٹ ڈیوائس‘ کا استعمال بھی ایک تشویش ناک پہلو ہے۔
آئی سیف دستوں کے تقریباً بارہ ہزار اہلکار مقامی دستوں کو تربیت دینے کے لیے افغانستان میں تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا یونٹ ابھی بھی جنگی کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت مخالف گروہوں کی جانب سے عدلیہ، مذہبی تنظیموں اور کابل انتظامیہ کا ساتھ دینے والے دیگر گروپوں کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔