افغانستان ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب مشترکه آپریشن پر راضی
5 جولائی 2017امریکی ایوان بالا کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کے دوران صدر محمد اشرف غنی نے اعلان کیا که وه اس تجویز سے متفق ہیں جس کے تحت امریکی نظارت میں پاکستانی اور افغان سکیورٹی فورسز مشترکہ سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کے ٹهکانوں کے خلاف آپریشن کر سکیں گے۔ سینیٹر جان میک کین، جو امریکی سینیٹ میں مسلح خدمات کی کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں، نے صدر غنی کو یه تجویز پیش کی تهی۔ صدر غنی نے انہیں یقین دلایا که افغانستان کے لیے امریکا کی امداد اور تعاون کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ صدر غنی نے اس ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا، ’’سب [افغانستان کے تنازعے کے حل کے لیے] علاقائی حل پر متفق ہو گئے ہیں۔‘‘
افغانستان میں نئی حکمت عملی اپنائی جائے، امریکی سینیٹرز
پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے میں قیام امن ممکن نہیں، مک کین
افغانستان میں اب کیا ہوگا؟ یورپ امریکی جواب کے انتظار میں
گزشته ماه پاکستانی فوج کے شعبه تعلقات عامه ISPR کے جاری ایک بیان میں بهی اس تجویز کا ذکر کیا گیا تها۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوده سے منسوب اس بیان میں کہا گيا تها که پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردی کا مقابله کیا ہے اور دونوں کو یه کوشش مل کر جاری رکهنی چاہیے۔ جنرل باجوه نے ملکی فوج کے ہیڈ کوارٹرز میں ایک غیر معمولی اجلاس کے دوران افسران کو ہدایت کی تهی که دہشت گردوں کی غير قانونی آمد و رفت پر نظر رکهنے کے لیے افغان سکیورٹی دستوں کے ساته تعاون کیا جائے۔
کابل میں نیٹو کے دفتر میں منعقده ایک تازه خبری نشست کے دوران سینیٹر میک کین نے کہا که رواں ہفتے اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساته ملاقاتوں میں حقانی نیٹ ورک کا معاملہ اٹهایا گیا تھا، اور اس دہشت گرد گروه کے خلاف اقدامات پر زور دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’انہوں [پاکستانی حکام] نے جواب دیا که اقدامات کیے گئے ہیں، جیسا که وزیرستان میں دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا اور کچه اور کام بھی جوکه بہت اہم ہیں۔ ہم نے یه واضح کیا ہے که ہم جاکر ساری صورتحال صدر [ڈونلڈ ٹرمپ] کو بتائیں گے۔‘‘
پانچ رکنی امریکی وفد میں شامل سینیٹر لنڈسے گریہم نے خبردار کیا اگر پاکستان نے رویه نه بدلا تو امریکا بهی ایک قوم کی حیثیت سے پاکستان کی جانب رویه بدل ڈالے گا۔ ’’میرے خیال میں نیٹو افواج کے ساته افغانستان میں مزید امریکی افواج، جارحانه طرز عمل اور فضائی قوت یہاں پر جنگ کی منجمد صورتحال کو فتح میں بدل دے گی۔‘‘
افغانستان ميں اضافی نيٹو فوجی تعينات کيے جائيں گے، اسٹولٹن برگ
پاکستان اور افغانستان باہمی تعلقات بہتر بنائیں، چینی وزیر خارجہ
پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب مِلر مستعفی
سال 2014 میں اقتدار سنبهالنے کے بعد صدر غنی نے ماضی کی تلخیوں کے باوجود ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اپنے پہلے بیرونی سفر کے دوران اسلام آباد کے ایوان وزیر اعظم اور سفارتی آداب کے برعکس راولپنڈی میں پاک فوج کے صدر دفاتر کا دورہ کیا تها، جس سے دو طرفه تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی تهی۔ تاہم رواں سال کے اوائل میں پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردانه حملوں میں 100 سے زائد افراد مارے گئے تھے، جس کی ذمه داری اسلام آباد نے مبینه طور پر افغانستان میں چهپے دہشت گردوں پر عائد کی تھی۔ اسی طرح 31 مئی کو کابل میں ایک خونریز ٹرک حمله ہوا تھا، جس نے 150 سے زائد افراد کی جان لے لی تھی۔ کابل حکومت نے اس کی ذمه داری مبینه طور پر پاکستان میں چهپے حقانی نیٹ ورک پر ڈالی تھی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مطلوبه دہشت گردوں کی فہرست مہیا کر چکے ہیں۔
دریں اثنا چین بهی اسلام آباد اور کابل کے مابین اعتماد سازی کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کر چکا ہے۔ گزشته ماه قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں صدر غنی نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساته ایک غیر اعلانیہ ملاقات کے بعد ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں لکها تھا کہ دونوں ممالک نے ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے، جو مربوط انداز میں مسائل کے حل تلاش کرے گا۔ اس گروپ کا پہلا اجلاس کابل میں ہو گا۔