افغانستان کا مستقبل، چار اہم سوالات
16 ستمبر 2013تمام ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کے مستقبل کا دارومدار چار اہم امور پر ہو گا۔ 2014ء میں نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان میں تعینات رہنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتائج، افغانستان کے مجوزہ صدارتی انتخابات اور پڑوسی ممالک کی طرف سے افغان مصالحتی عمل کی حمایت پر رضامندی۔
امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کے ایک مطالعاتی جائزے کے تحت 2014ء میں نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان میں تعینات رہنے والے فوجیوں کی تعداد غالباً آٹھ ہزار جبکہ تربیت کاروں کی تعداد 12 ہزار ہو گی۔ انسداد دہشت گردی کے یونٹس کی تعداد نا معلوم ہے تاہم اس کے اہلکار بنیادی طور پر امریکا کی طرف سے متعین کیے جائیں گے۔ امریکا کے انسٹیٹیوٹ آف پیس سے منسلک جنوبی ایشیائی خطے کے ماہر معید یوسف کا کہنا ہے کہ "یہ نسبتاً ایک چھوٹا یونٹ ہو گا۔ سلامتی کے امور سے متعلق قیادت افغانوں کے پاس ہی ہو گی"۔
امریکا اور افغانستان کے مابین سلامتی امور سے متعلق معاہدے کے تحت افغانستان میں باقی رہ جانے والے دستوں کے بارے میں ضوابط بھی طے کیے جائیں گے جبکہ طالبان کے ساتھ رویے کے بارے میں اختلاف رائے اب تک دو طرفہ اتفاق کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔
طالبان اور انتخابات
ماہرین کی اکثریت اس امر کا یقین رکھتی ہے کہ افغانستان میں استحکام اور امن کی بحالی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک طالبان کو ملک کے موجودہ سیاسی نظام میں شامل کرنے پر اتفاق نہیں ہو جاتا۔ ماہر امور جنوبی ایشیا معید یوسف کے مطابق "کوئی بھی اس بارے میں بات نہیں کرتا کہ کیا طالبان کو سیاسی طور پر شامل کیا جائے یا نہیں۔ اس موضوع کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس شکل میں اور کن شرائط کے ساتھ طالبان سیاسی نظام میں حصہ لے سکتے ہیں اور یہ کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا انجام کیا ہو گا"۔
اور باتوں کے ساتھ ساتھ آئندہ برس اپریل میں مجوزہ صدارتی انتخابات بھی اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ طالبان کے ساتھ مصالحت کا عمل کامیاب رہتا ہے یا نہیں۔ اب تک حامد کرزئی کی جگہ صدارتی منصب سنبھالنے والی کوئی دوسری مقبول شخصیت سامنے نہیں آئی ہے، جس کا انتخاب کرتے ہوئے آئینی طور پر کرزئی کو تیسری صدارتی مدت سے علیحدہ کیا جا سکے۔ معید یوسف یقین سے کہتے ہیں کہ اگر آئندہ صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا اُس کے نتائج مشکوک ہوئے تو افغانستان میں اقتدار کی کامیاب منتقلی کی امید ختم ہو جائے گی۔
پاک بھارت دشمنی
مؤرخ اور صحافی ولیم ڈیل رمپل بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے لیے ایک مضمون میں افغانستان کی ترقی میں بھارت اور پاکستان کی دشمنی کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق 11 ستمبر 2001ء کے بعد طالبان کو حکومت سے علیحدہ کر نے اور اُنہیں سیاسی منظر نامے سے غائب کر دینے کے نتیجے میں ملک میں ایک بڑی اسٹریٹیجک تبدیلی رونما ہوئی۔ حامد کرزئی کی حکومت نے بھارت کی طرف اپنا جھکاؤ کیا اور اس کے نتیجے میں بھارت کو افغانستان میں اپنا سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ بڑھانے کا بہترین موقع مل گیا۔
Dalyrumple لکھتے ہیں، "موجودہ دور کے برعکس 1996ء اور 2001ء کے درمیان طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں بھارت کا کوئی بھی سفارتی مشن موجود نہیں تھا۔ اُدھر پاکستانی فوج اپنے عقب میں واقع افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو ہمیشہ اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی رہی، لہٰذا کرزئی اور ان کی بھارت کے ساتھ دوستی اُسے کھلتی رہی۔ اس وجہ سے پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس سروس آئی ایس آئی خفیہ طور پر طالبان کی اقتدار میں واپسی کی کوششوں میں مدد کرتی رہی۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر امتیاز گُل نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان افغانستان میں مستقل موجودگی اور مستقبل میں اسٹریٹجک اثر و رسوخ میں اضافے کی کئی دہائیوں سے چلی آ رہی جدوجہد مستقبل میں بھی جاری رہے گی اور اس میں مزید شدت پیدا ہو گی۔ مزید یہ کہ اگر دونوں ممالک کے مابین افغانستان پالیسی کے حوالے سے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق نہ ہو سکا تو باہمی تعلقات مزید کشیدہ ہو جائیں گے اور یہ دونوں چیزیں افغانستان کے مصالحتی عمل کی راہ میں رکاوٹ بنی رہیں گے"۔