افغانستان: کرزئی کی انتہاپسند گروپ سے ملاقات
23 مارچ 2010افغان صدر حامد کرزئی اپنے ملک کے اندر اُن طالبان گروپوں سے بات چیت کا ماضی میں عندیہ دیتے رہے ہیں جو اعتدال پسند سوچ کے حامل ہیں یا اب وہ طالبان کے ہمدرد نہیں رہے۔ اپنی اِس سوچ کے ساتھ انہوں نے حزب اسلامی کے ایک وفد کے ساتھ گزشتہ دنوں میں ملاقات کی۔ حزب اسلامی کے سربراہ سابق افغان وزیر اعظم گلبدین حکمت یار ہیں اور اُن کے گروپ کو بھی طالبان اور القائدہ کے ساتھ وابستگی رکھنےکی وجہ سے اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر بلیک لسٹ کیا جا چکا ہے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب اقوام متحدہ کے ادارے سکیورٹی کونسل نے افغان حکومت کی اُن کوششوں کو سراہا ہے جو امن کے حصول کے لئے اُن طالبان عناصر کے ساتھ بات چیت سے منسلک ہیں۔ کرزئی حکومت کی کوشش ہے کہ اُن طالبان کو مرکزی سیاسی دھارے میں لایا جائے جو دہشت گردانہ کارروائیوں کو چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے افغان دستور کی حمایت کر چکے ہیں۔ کرزئی کا خیال ہے کہ ایسے افراد سے بات چیت کے ذریعے اندرون ملک پھیلی عسکریت پسندی کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ افغانستان میں انتہاپسندوں کی طاقت کو ختم کرنے کے لئے اضافی فوجیوں کی تعیناتی کے عمل میں ہے۔
افغان صدر کے ترجمان وحید عمر نے اِس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حزب اسلامی کے وفد کی جانب سے امن پلان اور تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ترجمان کا مزید کہنا ہے کو اِس امن پلان اور تجاویز پر صدر کی جانب سے غوروخوض شروع ہو گیا ہے۔ تاہم صدر کرزئی کی جانب اس پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ حزب اسلامی کے ترجمان ہارون زرغون نے بھی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وفد میں حزب کے سینئر اراکین شامل تھے۔ زرغون نے بتایا کہ افغان صدر کو پندرہ نکات پر مشتمل دستاویز دی گئی ہے اور اُس میں ایک غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے نظام الاوقات سے متعلق ہے۔ ایک دوسری تجویز عبوری انتظامی سیٹ اپ کے بارے میں ہے۔
افغان معاملات کے ماہرین کے خیال میں گلبدین حکمت یار کے گروپ کے ساتھ کسی معاہدے کے بڑے اثرات پیدا ہونا ممکن نہیں۔ افغانستان کے اندر وہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے باعث اب کمزور ہو چکے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ حکمت یار اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور وہ ایسے کسی معاہدے سے ملکی سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جبکہ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس جنگی سردار کے یقینی طور پر افغان سیاست کے سرگرم افراد سے تعلقات ہیں اور اُن کا فائدہ کرزئی حکومت کو حاصل ہو سکتا ہے۔ حزب اسلامی کے جنگجوؤں کی تعداد طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے بہت کم ہے لیکن یہ چار مشرقی افغان صوبوں میں خاصی مستحکم ہے۔ شمالی افغانستان میں بھی گلبدین حکمت یار کا کہیں کہیں اثر موجود ہے۔
دوسری جانب کرزئی کے حامیوں کے خیال میں اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو کم از کم امن کے راستے کا ایک کانٹا تو ختم ہو جائے گا اور حزب اسلامی کے کارکن جنوبی افغانستان میں جنگی صورت حال پیدا کرنے والے گروپوں کے لئے پریشانی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ جنوبی افغانستان میں شورش پیدا کرنے والے گروپوں میں طالبان کے ساتھ ساتھ حقانی کا نیٹ ورک بھی انتہائی نمایاں ہے۔ اِن کو موجودہ افغان سیاسی منظر نامے میں کوئٹہ شوریٰ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: افسر اعوان