1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کو ’معاشی ٹائم بم‘ کا سامنا

افسر اعوان2 جنوری 2015

افغانستان میں امریکی سربراہی میں نیٹو کا جنگی مشن اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ ملک طالبان کی عسکری سرگرمیوں کا شکار تو ہے ہی مگر اس کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ اس سے بھی بڑا ہے۔ یہ خطرہ ہے ملک کی معاشی صورتحال۔

https://p.dw.com/p/1EEC4
تصویر: AP

کابل کی سرائے شہزادہ مارکیٹ میں منی چینجرز کے پاس افغانی، ڈالرز، روپوں اور درہموں کے بنڈل کے بنڈل رکھے ہیں مگر یہاں ان کو تبدیل کروانے والے گاہک غائب ہیں۔ دو سال قبل کے مقابلے میں یہ کاروبار اب نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک دہائی تک تقریباﹰ دو ہندسی شرح نمو کے بعد افغان معیشت گزشتہ دو برسوں سے تنزلی کا شکار ہے۔ پہلے متنازعہ صدارتی انتخابات اور پھر نیٹو کے جنگی مشن کا خاتمہ افغان معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ نیٹو کا افغان جنگی مشن بدھ 31 دسمبر کو باقاعدہ طور پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے پیچیدہ انتظامی تبدیلیوں کے علاوہ ایک اور مشکل معاملہ اقتصادی حوالے سے حکومت کو درپیش مسائل بھی ہیں۔

بے روزگاری اور کمزور معیشت افغانوں کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہیں
بے روزگاری اور کمزور معیشت افغانوں کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہیںتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

سرائے شہزادہ مارکیٹ میں اپنے خاندانی کاروبار سے وابستہ امید خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان دنوں افغانستان سے باہر رقوم کی ترسیل بہت زیادہ جبکہ ملک کے اندر آنے والی رقوم کی مقدار کم ہے: ’’جیسے جیسے فوجوں کی واپسی قریب آتی گئی، سرمایہ داروں نے اپنی رقوم باہر بھیجنا شروع کر دیں۔ انہوں نے دبئی، چین، پاکستان، بھارت اور ترکی میں اپنا سرمایہ منتقل کر دیا۔‘‘

ایشیا فاؤنڈیشن نامی ایک امریکی این جی او کی طرف سے حال ہی میں نو ہزار افغان شہریوں کی رائے پر مشتمل ایک جائزے کا اہتمام کیا گیا، جس کے نتائج کے مطابق بے روزگاری اور کمزور معیشت افغانوں کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہیں جبکہ سلامتی کی صورتحال اور بدعنوانی کے نمبر اس کے بعد آتے ہیں۔

2002ء کے بعد سے امریکا نے افغانستان میں 104 بلین ڈالرز کے برابر رقم لگائی۔ ایک امریکی واچ ڈاگ افغانستان ری کنسٹرکشن (SIGAR) کے اسپیشل انسپکٹر جنرل کے مطابق یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اگر اس میں سے افراط زر کو نکال دیا جائے تو یہ مارشل پلان سے بھی زائد بنتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی مارشل پلان نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو ایک بار پھر معاشی طور پر کھڑا ہونے میں مدد دی تھی۔ تاہم بجائے تعمیر نو اور ترقیاتی کاموں کے امریکی رقم کا زیادہ تر حصہ جنگی آپریشنز کی نذر ہوا۔

اے ایف پی کے مطابق کابل حکومت اس برس 1.8 بلین امریکی ڈالرز کے برابر آمدن کی توقع کر رہی ہے۔ اگر اس حکومت کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے آٹھ بلین ڈالرز کی امداد نہ ملے، جس کا 2016ء تک کے لیے وعدہ کیا جا چکا ہے، تو افغانستان طالبان کے خلاف لڑنے والے اپنے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو تنخواہ تک دینے سے قاصر ہو گا۔