افغانستان کے حاجی اکبر ’بابائے زعفران‘
18 اکتوبر 2012ماضی میں حاجی اکبر پوست کاشت کیا کرتے تھے۔ یہ بڑا ہی منافع بخش کاروبار تھا لیکن اس دوران انہیں افغان حکومت کی جانب سے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہتا تھا۔حاجی اکبر بتاتے ہیں کہ اس وجہ سے انہیں اکثر اپنی جگہ تبدیل کرنا پڑتی تھی اور وہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں ہجرت کرتے رہتے تھے۔ گزشتہ 15 برسوں سے انہوں نے پوست کو خیر باد کہتے ہوئے زعفران کی کاشت شروع کر دی ہے۔ اب ان کا شمار افغانستان کے قومی ہیروز میں ہوتا ہے۔ افغانستان میں انہیں ’بابائے زعفران‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور حاجی اکبر کو ان کی خدمات کے بدلے میں افغان صدر حامد کرزئی نے ایک اعزازی تمغے سے بھی نوازا ہے۔
حاجی اکبر کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ انہوں نے 1998ء میں زعفران کی کاشت شروع کی۔ اُس وقت وہ ایک جلا وطن کے طورپر مغربی افغان صوبے ہرات میں رہتے تھے۔ زعفران کو کاشت کرنے کا ہنر انہوں نے پڑوسی ملک ایران سے سیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے ان کی زندگی اور اس کا مقصد بالکل ہی بدل کر رہ گئے۔ اب وہ ایک بہت بڑی کمپنی کے مالک ہیں اور ان کو اپنی کارکردگی پر بہت فخر ہے۔ ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ یہ سب کچھ زعفران کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ ’’زعفران نے میری زندگی خوشبو سے بھر دی۔ اس کاروبار نے مجھے امیر بنا دیا۔ میں نے اس پیسے سے حج کیا اور اپنے بچوں کی شادیوں کے اخراجات برداشت کیے۔ اس کے علاوہ اب میں کئی ایکٹر زمین کا مالک بھی ہوں۔‘‘
افغان حکومت زعفران کو پوست کا ایک بہترین نعم البدل سمجھتی ہے کیونکہ اگر قیمت کی بات کی جائے تو زعفران افیون سے مہنگا ہے۔ افغانستان کا موسم زعفران کی کاشت کے لیے بہت ہی سازگار ہے۔ اس کے علاوہ اگر جنوبی یا مغربی افغانستان میں کوئی شخص پوست سے زعفران کی جانب آنا چاہے تو کابل حکومت ایسے منصوبوں میں مدد بھی فراہم کرتی ہے۔ افغانستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے قائم وزارت کے ایک مشیر ذبیح اللہ دائم کہتے ہیں کہ حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے کئی صوبوں میں افیون کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مسئلہ صرف منشیات کے غیر قانونی کاروبار کا ہی نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کا بھی ہے، جو اپنی مسلح جدوجہد افیون سے ہونے والی آمدنی سے ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔
افغانستان میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا زعفران واقعی پوست کا نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے صوبہ ہرات میں زعفران کے خریدار جلیل احمد کہتے ہیں کہ زعفران کی کاشت صبر آزما کام ہے۔ ’’جب کوئی شخص دو ہزار مربع میٹر پر زعفران کی فصل کاشت کرتا ہے تو پہلے سال اسے صرف تین سو گرام زعفران حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے سال تقریباً 500 گرام جبکہ چار سال بعد جا کر کہیں چار کلو تک زعفران پیدا ہوتا ہے۔‘‘
مشرقی افغانستان کے ایک کاشت کار سردار خان نے بتایا کہ ملک کا ہر صوبہ زعفران کے حوالے سے سازگار نہیں ہے۔ ’’میں نے زعفران کی کاشت شروع کی تو اس سے حاصل ہونے والا زعفران انتہائی غیر معیاری تھا۔‘‘ اس نے مزید بتایا کہ اس صورتحال میں حکومت کا مالی تعاون فراہم کرنے کا وعدہ بھی جھوٹا ثابت ہو گیا۔ اس وجہ سے آج سردار خان کے کھیتوں میں ایک مرتبہ پھر پوست کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔
M. Saifullah ,ai / mm