افغانستان کے لیے نیا خصوصی امریکی مندوب نامزد
3 جولائی 2014یہ آزمودہ کار امریکی سفارتکار ایک ایسے وقت پر اس اہم ذمہ داری سے دستبردار ہو رہے ہیں جسے امریکا اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات اور افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات کے تناظر میں نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
جیمز ڈوبنز تقریباً ایک سال تک افغانستان میں بطور خصوصی امریکی مندوب رہنے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں بُدھ کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کر دیا تھا، ساتھ ہی امریکی وزیر نے جیمبز ڈوبنز کی جگہ اُن ہی کے نائب ڈین فیلڈ مین کو افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی مندوب نامزد کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
ہندو کش کی شورش زدہ ریاست افغانستان سے متعلق یہ امریکی تبدیلی ایک اہم موڑ پر لائی گئی ہے۔ ایک طرف تو رواں سال کے آخر تک امریکی فوج کو افغانستان سے نکلنا ہے جبکہ وہاں باقی رہ جانے والی افواج کے بارے میں اب تک دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب 13 سال تک اقتدار میں رہنے والے صدر حامد کرزئی کا جانشین کون ہو گا، یہ بات اب تک غیر واضح ہے۔ حالیہ افغان صدارتی انتخابات کے دو اہم ترین امیدوار الیکشن میں دھاندلی کے مسئلے پر جھگڑ رہے ہیں۔ افغانستان کی تاریخ کا پہلا جمہوری انتقال اقتدار خطرے میں ہے اور موجودہ صورتحال میں امریکا کی اُس امید کو بھی گہرے خطرات لاحق ہیں جس کے تحت 2016ء کے اواخر تک افغانستان سے مکمل انخلاء کے وقت وہ ملکی ذمہ داریوں کو پُر امن اور ہموار طریقے سے افغان حکومت کو سونپ سکے گا۔
گزشتہ روز جیمز ڈوبنز کی ریٹائرمنٹ اور اُن کے جانشین کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا، ’’جمیز ڈوبنز کے صدر کرزئی کے ساتھ تعلقات بہت گہرے اور انمول تھے، خاص طور سے کٹھن لمحات میں۔‘‘
آزمودہ کار سفارتکار جیمز ڈوبنز ریٹائر ہونے کے بعد 2013ء میں افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی ایلچی بنے تھے۔ انہوں نے سال رواں میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اگلے برس سے جو امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے، اُن کی سلامتی سے متعلق ایک دو طرفہ معاہدہ طے کرنے لیے افعان حکام کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو بیان دیتے ہوئے ڈوبنز کا کہنا تھا کہ افغانستان کے موجودہ سیاسی بحران کے سبب ملک کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن کے بقول، ’’میرے خیال میں الیکشن کے بعد کی صورتحال پیچیدہ ہے اور اس سے ملک میں واضح تقسیم کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ایسی صورتحال سے دوچار ممالک کے لیے کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ان کے ہاں شکست خوردہ ہونے کی روایت ہی نہیں پائی جاتی۔‘‘
افغانستان کے مستقبل کا دار و مدار وہاں کے سیاسی استحکام پر ہے جس کے بارے میں جیمز ڈوبنز کا کہنا ہے، ’’اس صورتحال سے باہر نکلنا اور الیکشن کے واضح نتائج، جنہیں ہر کوئی قانونی اور قابل قبول سمجھے، وہی افغانستان کے مستقبل کے لیے ممکنہ طور پر اہم ترین بات ہے۔‘‘
مئی کے ماہ میں امریکی صدر باراک اوباما اعلان کر چُکے ہیں کہ 2016ء میں امریکی فوجی مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائیں گے۔ 32 ہزار امریکی فوجیوں میں سے 9 ہزار 008 آئندہ برس یعنی 2015 ء کے آغاز کے بعد بھی وہاں تعینات رہیں گے۔