افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے نیٹو اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات
22 دسمبر 2013مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے تحت سن 2014ء میں افغانستان سے نیٹو فوجوں کے انخلا کے بعد وہاں تربیت اور تعاون کی غرض سے کچھ فوجی دستے قیام کر پائیں گے۔ تاہم اس بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ کابل حکومت کا جب تک امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی معاہدہ مکمل نہیں ہو جاتا، اس معاہدے پر بھی دستخط نہیں کیے جائیں گے۔
افغان صدر حامد کرزئی اور واشنگٹن انتظامیہ کے درمیان باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخطوں کا معاملہ فریقین کے درمیان کشیدگی کی اہم وجہ بنا ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان میں سن 2014ء کے بعد بھی چند ہزار امریکی فوجی تعینات رہ پائیں گے۔ امریکی کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان میں مقامی فورسز کو تربیت اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری معاونت فراہم کی جائے گی، تاہم صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ کابل حکومت اگلے برس اپریل میں صدارتی انتخابات سے قبل اس معاہدے پر دستخط نہیں کرے گی۔ ابتدا میں صدر کرزئی نے اس معاہدے کی حمایت کی تھی، تاہم بعد میں اس پر دستخطوں سے انکار کر دیا تھا۔
ہفتے کے روز نیٹو کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ ایک الگ معاہدے کی بابت گفتگو کے آغاز سے متعلق بیان سامنے آنے کے بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان ریئرایڈمرل جان کِربی نے کہا، ’’امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے کابل حکومت کے لیے یہ پیغام واضح ہے کہ باہمی سکیورٹی معاہدے پر کسی تؤقف کے بغیر فوری طور پر دستخط کیے جائیں۔‘‘
نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس دفاعی اتحاد کے سینیئر سویلین نمائندے ماؤرٹس یوخمز (Maurits Jochems) اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر رنگین سپانٹا اس سلسلے میں بات چیت کریں گے۔
اپنے اس بیان میں راسموسن کا کہنا تھا، ’’مجھے خوشی ہے کہ ہم آج ان مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نیٹو کے فوجی دستوں سے متعلق کسی بھی معاہدے پر دستخط اس وقت تک نہیں کیے جائیں گے، جب تک کابل اور واشنگٹن حکومتیں باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کر دیتیں۔‘‘
راسموسن نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت نیٹو فوج افغان سکیورٹی فورسز کو ’تربیت، مشاورت اور معاونت‘ فراہم کرے گی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیردفاع چک ہیگل نے بھی نیٹو اور افغانستان کے درمیان ان مذاکرات کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ہیگل کے ایک ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’نیٹو کی جانب سے اس معاہدے کے لیے بات چیت کا آغاز عالمی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے سن 2014ء کے بعد بھی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار ہے۔‘‘