’اقتصادی راہداری‘ کی راہ میں حائل مشکلات
21 اپریل 2015بیجنگ حکومت پاکستان میں چھیالیس بلین ڈالر مالیت کے برابر سرمایہ کاری کے متعدد نئے منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس پلان کے تحت اہم تعمیراتی منصوبے پاکستان کے انتہائی عدم استحکام کے شکارعلاقوں میں بھی شروع کیے جانا ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران پیر کے دن اسلام آباد اور بیجنگ نے پچاس سے زائد ایسے سمجھوتوں کو حتمی شکل دی، جن میں شاہراہوں کی تعمیر، ریلوے کا نظام اور پائپ لائن کا ایک جال بچھانے کے منصوبہ جات بھی شامل ہیں۔ ان منصوبہ جات کی بدولت چین کو تجارتی مقاصد کے لیے مشرق وسطیٰ تک آسان راستہ فراہم ہو جائے گا۔
اگرچہ ان ہمسایہ ممالک کے مابین مجوزہ منصوبہ جات کو حتمی شکل دیے جانے کے نتیجے میں بالخصوص پاکستان میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے تاہم انہیں عملی شکل دینے میں مشکلات بہرحال موجود ہیں۔ گوادر میں ترقی اور وہاں بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے علاوہ اس اہم پاکستانی بندر گاہی علاقے کو چین سے ملانے کے لیے جن تعمیراتی منصوبوں کی بات کی جا رہی ہے، ان میں بلوچستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گوادر اور مغربی چینی شہر کاشغر کے مابین تین ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور ان دونوں علاقوں کو ملانے کے لیے شاہراہیں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے بھی گزریں گی۔
صوبہ بلوچستان کو پاکستان کا سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکارعلاقہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں گزشتہ ایک عشرے سے علیحدگی پسندی کی ایک خونریز تحریک چل رہی ہے۔ اس صوبے میں فعال بلوچ باغی گوادر کی ترقی کے خلاف ہیں۔ یہ باغی ماضی میں متعدد گیس پائپ لائنوں اور ریلوے لائنوں کو دھماکوں سے اڑا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس صوبے میں کام کرنے والے چینی انجینیئروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر ہی بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ایک ایسے خونریز حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس کے نتیجے میں وہاں مختلف تعمیراتی کاموں میں مصروف بیس مزدور مارے گئے تھے۔
روزنامہ بلوچستان ایکسپریس کے ایڈیٹر صادق بلوچ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باغی ایسے سرمایہ کاروں اور تعمیراتی کمپنیوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں، جو حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں باغی بالخصوص بلوچستان میں کام کرنے والے چینیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ صادق بلوچ کے مطابق باغیوں میں ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ یوں وہ اقتصادی ترقی میں رخنہ ڈال سکتے ہیں، انتظامیہ کے کاموں کو روک سکتے ہیں اور اس علاقے میں حکومتی رٹ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
یہ امر اہم کہ بلوچستان میں باغیوں کو طاقت کے بل پر پسپا کرنے کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس صورتحال میں اس صوبے کے وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ حکومت ان باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش میں انتہائی سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ کوئٹہ میں اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالمالک بلوچ نے مزید کہا، ’’میری کوشش ہے کہ میں ان (باغیوں) کو قائل کر لوں لیکن ابھی تک مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف مذاکرات سے ہی حل ہو سکتا ہے۔