1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ انسانی حقوق اور پرائیویسی کے تحفظ کو یقینی بنائے، سنوڈن

عاطف بلوچ2 دسمبر 2014

ایڈورڈ سنوڈن نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ عام شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔اس برس ’رائٹ لائیولی ہُڈ‘ ایوارڈ حاصل کرنے والے سنوڈن نے مزید کہا کہ عالمی ادارہ انسانی حقوق کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کرے۔

https://p.dw.com/p/1DxuA
تصویر: AFP/Getty Images/J. Nackstrand

امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن، انسانی حقوق کی فعال پاکستانی کارکن عاصمہ جہانگیر، برطانوی صحافی ایلن رسبریجر، سری لنکا کے انسانی حقوق کے کارکن باسل فرنینڈو اور امریکا کے ماحول پسند کارکن بِل مکیبن کو پیر کے دن سویڈن کے انسانی حقوق کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سویڈن کے ’رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ‘ نامی اس اعزاز کو ’متبادل نوبل انعام‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

سویڈش پارلیمنٹ میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں جب ایڈورڈ سنوڈن کو ان کی عدم موجودگی میں رواں برس کا ’رائٹ لائیولی ہُڈ‘ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا تو ممبران پارلیمان نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں کھل کر داد دی۔ روس میں سیاسی پناہ لیے ہوئے امریکی شہری سنوڈن یہ انعام وصول کرنے کے لیے ذاتی طور پر اسٹاک ہولم نہ جا سکے لیکن انہوں نے اس تقریب کے شرکاء سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔

Asma Jahangir die Anwältin und Menschenrechtlerin aus Pakistan
انسانی حقوق کی فعال پاکستانی کارکن عاصمہ جہانگیرتصویر: Mukhtar Khan/AP/dapd

سنوڈن نے کہا، ’’یہ انعام بہت سے لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے۔‘‘ اس تناظر میں انہوں نے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کی کوششوں کے لیے صحافیوں، پبلشرز، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کا شکریہ ادا کیا۔ یاد رہے کہ انتہائی خفیہ معلومات عام کرنے پر امریکی حکومت کو مطلوب سنوڈن گرفتاری کے خوف کی وجہ سے سویڈن نہیں گئے۔ امریکی حکومت نے جاسوسی کے الزامات عائد کرتے ہوئے سنوڈن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔

ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے ایڈورڈ سنوڈن نے اعتراف کیا کہ بہت سے صحافیوں، پبلشرز اور کارکنان نے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر اپنے فرائض سرانجام دیے ہیں۔ ان کے بقول اسی وجہ سے ایسے افراد واپس اپنے گھروں کو نہیں جا سکتے کیونکہ انہیں گرفتاری کا خوف ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی مثال بھی دی۔ سنوڈن کے بقول یہ ایسے حقائق ہیں جو جلد تبدیل نہیں ہو سکتے۔

سنوڈن نے واضح کیا کہ انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے جو کام کیا گیا ہے یا جو قربانیاں دی گئی ہیں، وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے عزم ظاہر کیا، ’’مجھے یقین ہے کہ ہم یہ دوبارہ بھی کریں گے۔‘‘ انہوں نے اس دوران اقوام متحدہ پر بھی زور دیا کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور لوگوں کی نجی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے۔

رائٹ لائیولی ہُڈ انعام کے بانی سویڈش جرمن کارکن جیکب فان اُکسکُل نے بتایا ہے کہ سنوڈن کا انعام اس وقت تک سویڈن میں ہی رہے گا، جب تک وہ خود یہ انعام وصول کرنے کے لیے وہاں نہیں آتے۔ اس انسان دوست شخصیت نے مزید کہا کہ فی الحال سنوڈن اگر روس سے باہر نکلتے ہیں تو انہیں خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور اسی لیے وہ اس تقریب میں شرکت کے لیے سویڈن نہیں آئے۔

پیر کی شام منعقدہ اس تقریب کے دوران جب انسانی حقوق کی سرکردہ پاکستانی کارکن عاصمہ جہانگیر نے اپنا انعام وصول کیا تو شرکاء نے انہیں بھی دل کھول کر داد دی اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ عاصمہ جہانگیر کو پاکستان میں ذاتی طور پر ’سنگین خطرات‘ کا سامنا ہے لیکن پھر بھی وہ انسانی حقوق کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بچوں اور بالخصوص مذہبی اقلیتوں کے لیے ان کی کوششوں کو عالمی سطح پر ستائش کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ رواں برس اس انعام کے لیے 53 ممالک کی 120 شخصیات کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔