اقوام متحدہ تفتیشی مشن عراق بھیجے پر متفق
2 ستمبر 2014اقوام متحدہ کی اس کونسل نے پیر کو جنیوا میں عراق اور فرانس کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرار داد منظور کر لی ہے۔ یہ پیش رفت اس کونسل کے سینتالیس رکن ملکوں کے ایک ہنگامی اجلاس میں ہوئی ہے۔
یہ کونسل اسلامی ریاست کے جرائم کی تفتیش کے لیے گیارہ تفتیش کار بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے 1.18 ملین ڈالر کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ مشن آئندہ برس مارچ میں رپورٹ پیش کرے گا۔
عراق کے وزیر برائے انسانی حقوق محمد شیعہ السوڈانی نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو بتایا: ’’ہمیں ایک دہشت گرد عفریت کا سامنا ہے۔‘‘
خود ساختہ اسلامی ریاست نے عراق اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ’خلافت‘ کا اعلان کیا ہے۔ مغربی حکومتیں اسے سکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دے چکی ہیں۔
جہادیوں کے خلاف مغرب کی برہمی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب انہوں نے امریکی صحافی جیمز فولی کے قتل کی ویڈیو جاری کی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان سنی شدت پسندوں نے رواں برس بارہ لاکھ سے زائد افراد کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق محض اگست کے مہینے میں ہی عراق میں فرقہ وارانہ کارروائیوں کے نتیجے میں 1420 افراد ہلاک ہوئے۔
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی ڈپٹی ہائی کمشنر فلاویا پانسیری کے مطابق اس بات کے ’ٹھوس شواہد‘ موجود ہیں کہ اسلامی ریاست اور اس کے اتحادی گروہوں نے ہدف بنا کر لوگوں کو قتل کیا، جبراﹰ مذہب تبدیل کروائے، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں اور عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا: ’’ہمیں جو رپورٹیں موصول ہوئیں وہ ناقابلِ گمان حد تک غیرانسانی کارروائیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘
پانسیری نے مسیحیوں، ایزدیوں، شیعہ مسلمانوں اور ترکمان کمیونٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی نسلی اور مذہبی نسل کشی کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب عراق میں فوج، کرد فائٹرز اور شیعہ ملیشیا بدستور جہادیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ انہیں امریکا کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔ ان کارروائیوں کے تناظر میں عراق کے نگران وزیر اعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ ملک کو جہادیوں کا قبرستان بنا دیا جائے گا۔