1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ شامی باشندوں کی مدد میں ’بری طرح ناکام‘

کشور مصطفیٰ12 مارچ 2015

خانہ جنگی کی شکار عرب ریاست شام کے کئی ملین شہریوں کی امداد کے ضمن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کردار پر 20 سے زائد بین الاقوامی امدادی گروپوں نے سخت تنقید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EpC1
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari

ان امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کونسل گزشتہ برس شامی باشندوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو فروغ دینے سے متعلق منظور کردہ تین قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے۔

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے والی اور انسانی حقوق کے لیے کوشاں ان 21 تنظیموں نے بڑی طاقتوں اور عالمی برادری کو شام میں تباہ کُن انسانی المیے کے شکار باشندوں کی مدد کے حوالے سے ’ناکام‘ قرار دیا ہے۔ ان تنظیموں کی طرف سے یہ موقف ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت اپنے پانچویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ پرامن احتجاج سے شروع ہو کر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر جانے والی یہ بغاوت ایک ہلاکت خیز انسانی بحران بن چکی ہے۔ اس تنازعے نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

شام کے بحران کے آغاز سے اب تک دو لاکھ بیس ہزار انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ایک ملین کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ چار ملین شامی باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ممالک کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور وہاں جا کر انہوں نے خود کو بطور مہاجر رجسٹر کروا رکھا ہے۔ ملک کے اندر ہی بے گھر ہو جانے والے شامی باشندوں کی تعداد 7.6 ملین بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت 12.2 ملین شامی باشندوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہے۔

Massenflucht aus Syrien in die Türkei
امداد پر انحصار کرنے والے شامی بچوں کی تعداد 5.6 ملین تک پہنچ چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/U. Yunus Tosun

عالمی سلامتی کونسل شام کے بحران کے معاملے میں اپنے ہی اندر پائی جانے والی تقسیم اور اختلافات کے سبب مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ اختلافات خاص طور پر گزشتہ برس شامی باشندوں کے لیے امداد میں اضافے سے متعلق تین قراردادوں کی منظوری کے سلسلے میں سامنے آئے۔ اس ضمن میں آخری قرارداد دسمبر 2014 ء میں متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی، جس کے ذریعے شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سرحد پار سے امداد کی فراہمی میں توسیع کا فیصلہ دمشق حکومت کی منظوری کے بغیر کیا گیا تھا۔ تاہم انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس فیصلے کو ’سفارتی سطح پر عملی جامہ نہیں پہنایا گیا‘۔

ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سیکرٹری جنرل ژان ایگیلینڈ کے بقول، ’’تلخ حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں کے نفاذ میں بالکل ناکام ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’گزشتہ برس شام کی ہولناک جنگ کا اب تک کا تاریک ترین سال تھا۔ جنگی فریقین نے اقوام متحدہ کے مطالبات نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اور انہیں جواب دہ نہ بنایا جا سکا۔ شامی شہریوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور ان کی امداد تک رسائی بھی بہتر نہ بنائی گئی۔‘‘

Syrien Gefechte zwischen Rebellen und Regierungstruppen in Aleppo
شام کا بیشتر علاقہ خانہ جنگی کے سبب نیست و نابود ہو چُکا ہےتصویر: Z. Al-Rifai/AFP/Getty Images

ادھر دنیا بھر سے غربت اور ناانصافی کے خاتمے کے لیے کوشش کرنے والی 17 تنظیموں کے اتحاد اور ’آکسفام‘ کے سربراہ اینڈی بیکر نے شامی تنازعے کے حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے، ’’ایسی کوئی بھی قرارداد کسی ایسی ماں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے، جس کے گھر پر بم برسائے جائیں اور جس کے بچے بھوکے ہوں۔‘‘ اینڈی بیکر نے اقوام متحدہ کے قول و فعل کو ’’کھوکلا‘‘ قرار دیا۔

27 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں ان تنظیموں نے کہا ہے کہ دنیا کے ان بحران زدہ علاقوں میں ایسے افراد کی تعداد گزشتہ برس تقریباً دگنی ہو کر 4.8 ملین ہو گئی، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے جبکہ امداد پر انحصار کرنے والے بچوں کی تعداد 5.6 ملین تک پہنچ چکی ہے، جس میں 31 فیصد اضافہ محض پچھلے برس یعنی 2014ء میں ہوا۔