اقوام متحدہ میں فلسطین کو درخواست پیش کرنے سے روکنے کی سفارت کاری
21 ستمبر 2011سفارت کاری کی ان کوششوں سے باخبر افراد کا کہنا ہے کہ اس منظر نامے کے تحت فلسطینی صدر محمود عباس جمعے کو اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی درخواست پیش کر دیں گے اور سلامتی کونسل اس پر کارروائی کئی ہفتوں کے لیے ملتوی کر دے گی۔
اس کے چند ہفتوں بعد یورپی یونین، روس، اقوام متحدہ اور امریکہ پر مشتمل چہار فریقی گروپ ایک متوازن بیان جاری کرے گا تاکہ دونوں فریق سیاسی شرمندگی سے بچتے ہوئے امن مذاکرات کی بحالی پر رضامند ہو جائیں۔
مگر اس کی راہ میں تشدد سے لے کر سفارت کاروں کے ایک متفقہ بیان تیار کرنے میں ناکامی سمیت متعدد مشکلات بھی درپیش ہیں۔ اسرائیل اور مصر میں امریکہ کے سابق سفیر اور اس وقت پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے ڈینیئل کرٹزر کا کہنا ہے، ’’سفارتی تنازعے کی روک تھام کا یہ واحد طریقہ ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے تمام اقدامات کو ہم آہنگی سے اور بروقت انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
عباس نے 16 ستمبر کو رملہ میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ وہ عالمی ادارے میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی درخواست ضرور پیش کریں گے، جس کے بعد عوام کی ان سے توقعات بڑھ گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے قواعد کے مطابق سیکرٹری جنرل بان کی مون اس درخواست کو فوری طور پر سلامتی کونسل کے اراکین کے سامنے پیش کرنے کے پابند ہیں، جس کے بعد سلامتی کونسل کے موجودہ صدر اور لبنانی سفیر نواف اسلم درخواست کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کریں گے۔ عام طور پر اس پر کارروائی 35 دن کے اندر مکمل کرنا ہوتی ہے مگر اس بار اسے مؤخر کیا جا سکتا ہے تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان سفارت کاری کو کام کرنے کا موقع دیتے ہوئے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کا مزید وقت دیا جائے اور امریکہ کو اسے سلامتی کونسل میں ویٹو کر کے عرب اتحادیوں کے غم و غصے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاہم اس راہ میں بہت سے خطرات درپیش ہیں۔
سب سے بڑا خطرہ تو یہ ہے کہ چہار فریقی گروپ شاید کسی متفقہ بیان پر رضامند نہ ہو سکے کیونکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان سرحدوں، یروشلم کی حیثیت، فلسطینی مہاجرین اور یہودی بستیوں کی تعمیر سمیت بہت سے مسائل موجود ہیں۔
ایک اور مسئلہ فلسطینی رائے عامہ کا ہے۔ فلسطینی عوام شاید سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے ویٹو کرنے کے بعد اس درخواست کو جنرل اسمبلی میں لے جانا چاہیں جہاں اسے مکمل رکن کی بجائے ’غیر رکن ریاست‘ کا درجہ حاصل کرنے کے لیے دو تہائی کی بجائے صرف سادہ اکثریت کی ضرورت پڑے گی۔
یہ حیثیت ملنے سے بھی فلسطینیوں کو بین الاقوامی فوجداری عدالت سمیت بعض عالمی اداروں تک رسائی مل جائے گی جہاں وہ اسرائیل کے خلاف غزہ کے محاصرے، یہودی بستیوں کی تعمیر اور دسمبر 2008 تا جنوری 2009 میں اسلامی گروپ حماس کے خلاف جنگ پر فوجداری مقدمات دائر کر سکیں گے۔ عباس کے لیے اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں لے جانے سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ مستقبل میں کسی بھی وقت اسے جنرل اسمبلی میں پیش کر سکیں گے۔
اس تمام صورت حال کے تناظر میں آج بدھ کو امریکی صدر باراک اوباما فلسطینی صدر محمود عباس سے بند کمرے میں ملاقات کریں گے تاکہ انہیں اقوام متحدہ میں درخواست پیش کرنے سے روک کر اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امتیاز احمد