1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کا ٹریبیونل برائے جنگی جرائم

20 دسمبر 2008

دی ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ کے لئے اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل کو امید ہے کہ اگربوسنی سرب رہنما راڈووان کاراچچ کے مطوب ساتھی راتکو ملادِچ عنقریب گرفتار ہوگئے تو دونوں کے خلاف مقدمے کی کارروائی اکٹھی ہوگی۔

https://p.dw.com/p/GKEs
اکتیس جولائی سن دو ہزار آٹھ کو ہونے والی سماعت کے دوران کراچچتصویر: AP

جنرل ملادِچ، کراچچ کی سیاسی قیادت میں بوسنی سرب فوج کے کمانڈر تھے جو ابھی تک مفرور ہیں اور بھرپورکوششوں کے باوجود انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان دونوں ملزمان پر بوسنی جنگ میں مسلمانوں کی نسل کُشی کے الزامات ہیں اور راتکو ملادِچ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ آج بھی سربیا ہی میں کہیں روپوش ہیں۔

Gefängnis der UN in Den Haag
اس تصویر میں وہ جگہ دکھائی جا رہی ہے جہاں کراچچ کو حراست میں رکھا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

گیارہ الزامات: دی ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ کے لئے یہ بین الاقوامی عدالت 1993 میں قائم کی گئی تھی اور اِسے اپنا کام سن 2010 تک مکمل کرنا تھا لیکن جب بوسنی سرب رہنما راڈووان کاراچچ کی گرفتاری میں کئی سال لگے گئے، تو یہ سوچتے ہوئے بھی کہ جنرل ملادِچ ابھی تک مفرور ہیں، اقوام متحدہ نے اس عدالت کی کارروائی کی تکمیل کی مدت میں 2011 تک کی توسیع کردی۔

اس عدالت کے وکیل استغاثہ کے مطابق، راڈووان کاراچچ پرشدید نوعیت کے گیارہ مختلف الزامات عائد کئے گئے ہیں اور اگر راتکو ملادِچ عنقریب گرفتار ہوگئے تو دونوں کے خلاف مقدمے کی کارروائی اکٹھی لیکن زیادہ مؤثر طور پر مکمل کی جاسکے گی اور یوں وقت اور مالی وسائل کی بچت بھی ہو سکے گی۔

خصوصی رعایت: دی ہیگ کی عدالت نے اب تک راڈووان کاراچچ کے خلاف جو ابتدائی کارروائی شروع کی ہے اُس میں ٹریبیونل کے جج کاراچچ کے ان دعووں کو رد کر چکے ہیں کہ جون 1996 میں امریکی مذاکراتی مندوب رچرڈ ہول بروک کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے تحت کاراچچ اپنے خلاف کسی بھی عدالتی کارروائی سے مستثنٰی ہیں، لہٰذا ان کے خلاف مقدمہ نہ چلایا جائے۔ اس عدالت کے ججوں کے مطابق عالمی قوانین کے تحت اس طرح کے رعایتی معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اگر ایسی کوئی مفاہمت طے پائی بھی تھی تو راڈووان کاراچچ عدالت کو اُس کا دستاویزی ثبوت مہیا کریں۔ بوسنی جنگ کے خاتمے کے بعد ڈیٹن امن معاہدے کی تکمیل میں مرکزی کردار ادا کرنے والے امریکی مندوب رچرڈ ہول بروک کے مطابق، ایسا کوئی خفیہ معاہدہ طے نہیں پایا تھا۔

کاراچچ اسی سال جولائی میں بلغراد سے گرفتار کئے گئے تھے جہاں وہ ایک نئے روپ میں کافی عرصے سے مقیم تھے۔ ان کے خلاف الزامات میں سے سب سے سنگین الزام 1995 میں سرے برے نیتسا میں مسلمانوں کا وہ قتل عام ہے جس میں سرب فوج نے آٹھ ہزار غیر مسلح بوسنی مردوں اور لڑکوں کو قتل کرنے کے بعد، ان کی لاشیں جلا دی تھیں اور بچی کچھی لاشیں شہر کے نواحی جنگلات میں اجتماعی قبروں میں دفن کردی گئی تھیں۔