اقوام متحدہ کا پہلا امدادی طیارہ صومالیہ پہنچ گیا
28 جولائی 2011قرن افریقہ میں صومالیہ وہ ملک ہے جہاں صورتحال سب سے زیادی سنگین ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 10 ملین افراد کو مدد کی ضرورت ہے۔ دارالحکومت موغا دیشو میں اسی سلسلے میں امدادی کیمپ لگائے جا رہے ہیں۔ یہاں چھ بڑے بڑے برتنوں میں کھانا پکایا جا رہا ہے، جن سے بھاپ اٹھتی دیکھی جاسکتی ہے۔ باورچیوں کی حفاظت کے لیے صومالیہ کی عبوری حکومت کے مسلح محافظ کھڑے ہیں۔ صومالیہ کی فوج انتہائی کمزور ہے اور اس کا دارالحکومت کے صرف آدھے حصے پر کنٹرول ہے لیکن مہاجرین کے کیمپوں میں یہ موجود ہے۔
موغا دیشو کی بلدیہ نے چند روز قبل مہاجرین کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس کے ترجمان محمد دین حسن یونس کہتے ہیں، ’’قحط زدہ علاقوں سے لوگ گزشتہ دو ماہ سے موغا دیشو پہنچ رہے ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مہاجرین شہر بھر میں تقسیم تھے۔ پھر ہم نے مہاجرین کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ انتظامی امور کو بہتر طریقے سے چلایا جا سکے۔ ہم تمام افراد کو مہاجرین کے اس کیمپ میں لے آئے ہیں۔ اب یہاں لوگوں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔‘‘
مہاجرین کمیٹی شہر کے اندرونی حصوں سے اب تک سولہ ہزار افراد کو یہاں لا چکی ہے۔ خاردار جھاڑیوں اور اڑتی دھول میں یہ کیمپ قائم کر دیا گیا ہے، جن رہائش گاہوں کی یونس بات کر رہے تھے، وہ بوسیدہ لکڑیوں کے کمزور ڈھانچوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ان مہاجرین کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ یونس کے مطابق آج پھر 650 کے قریب خاندان اس کیمپ میں پہنچے ہیں اور ہر خاندان پانچ سے دس افراد پر مشتمل ہے۔ یونس کہتے ہیں کہ یہاں پر تقسیم کی جانے والی اشیاء حکومتی نہیں بلکہ امیر لوگوں اور بیرونی ممالک کی عطیہ کردہ ہیں۔ ان کے مطابق قطر حکومت کی طرف سے بھی یہاں امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں۔
یہاں پر صومالیہ کی ایک امدادی تنظیم ’ساسید‘ کی طرف سے بھی ایک میڈیکل کیمپ لگایا گیا ہے، جس میں صرف دو میز اور ایک ترازو ہے، جس میں خوراک کی کمی کے شکار بچوں کا وزن کیا جاتا ہے۔ اس کیمپ کو چلانے والے محمد ابراہیم کا کہنا ہے، ’’ ہم گزشتہ تین روز سے غذائی کمی کے شکار پانچ سو ستر بچوں کو طبی امداد فراہم کر چکے ہیں۔ زیادہ بیمار بچوں کو ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔‘‘
ابراہیم کا کہنا ہے کہ قحط زدہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہر طرف بھوک کا راج ہے۔ ابراہیم کو خدشہ ہے کہ موجودہ سہولیات کے ساتھ وہ اس صورتحال سے نمٹنے سے قاصر ہوں گے۔
رپورٹ: بیٹینا رہول / امتیاز احمد
ادارت: افسر اعوان