1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کو شام کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا ہے

Schließ, Gero / عدنان اسحاق 17 ستمبر 2013

ایک طویل انتظار کے بعد اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی رپورٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔

https://p.dw.com/p/19jH0
تصویر: AFP/Getty Images

شامی صدر بشارالاسد پر امریکی حملے کا اس قدر دباؤ تھا کہ انہیں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی تسلیم کرنا پڑ گئی۔ دوسری جانب تمام حلقوں کو یقین تھا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار دمشق کے نواح میں اعصاب شکن گیس کے حملے کی تصدیق کر دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے پیش کی جانے والی رپورٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔

ایک طویل انتظار کے بعد اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون گزشتے جمعے سے ہی شام میں اعصاب شکن گیس کے شواہد کے بارے میں واضح انداز میں بات کر رہے تھے۔ عالمی برادری کو بھی اس رپورٹ کا انتہائی شدت سے انتظار تھا۔ تاہم جنیوا میں روس اور امریکا کے مابین شامی کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے معاہدے کی وجہ سے رپورٹ کی وقعت ختم ہو گئی۔ ماہرین کے بقول امریکا اور روس کے مابین کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کا معاہدہ اس قدر اچانک طے پایا کہ اس رپورٹ کا ڈرامائی اثر زائل ہو گیا۔

Kerry und Lawrow in Genf
روس اور امریکا کے مابین شامی کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے معاہدے کی وجہ سے رپورٹ کی وقعت ختم ہو گئیتصویر: Reuters

سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی رپورٹ سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ 21 اگست کو دمشق کے نواح میں کیے جانے والے حملے میں اعصاب شکن گیس سارین استعمال کی گئی تھی۔ لیکن اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کارروائی شامی باغیوں یا دمشق حکومت کی تھی اور یہ معلوم کرنا ان معائنہ کاروں کی ذمہ داری بھی نہیں تھی۔

واشنگٹن میں بروکنگس انسٹیٹیوٹ نامی ایک تھنک ٹینک سے منسلک ماہر مشرقی وسطیٰ بروس ریڈل کہتے ہیں کہ رپورٹ کے سامنے آنے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حملے میں اسد حکومت کا ہاتھ ہے۔ دوسری جانب بہت ہی کم تعداد لوگوں کی ایسی ہے، جو بشارالاسد کے اس مؤقف کی تائید کرتی ہے کہ یہ باغیوں کی کارروائی ہے۔ اس تناظر میں بان کی مون کا بیان قدرے سیاسی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عالمی برادری اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

بروس ریڈل مزید کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی فکر ہے کہ اس پیش رفت پر شامی باغیوں کا ردعمل کیا ہو گا۔ ان میں سے زیادہ تر جنیوا میں ہونے والے معاہدے کو صدر اسد کی جیت سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول شامی باغیوں میں انتہاپسند عناصر اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ان پر حملے کر سکتے ہیں۔ ریڈل مزید کہتے ہیں کہ القاعدہ اقوام متحدہ کو اسلام مخالف قوتوں کے آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہے اور القاعدہ کی شامی شاخ النصرہ فرنٹ دمشق اور ملک کے دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

دوسری جانب امریکا اور فرانس یہ واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ اگر شامی صدر بشارالاسد نے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو عسکری کارروائی کا امکان فی الحال موجود ہے۔