اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1325 بھی خواتین کا استحصال کم نہ کر سکی
1 نومبر 2010بحران زدہ علاقوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک عالمی امن و استحکام کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر دس سال قبل اقوام متحدہ کی طرف سے قرارداد نمبر 1325 منظور کی گئی تھی۔ تب سے اب تک یہ موضوع ایک سیاسی ہتھکنڈے کی حیثیت تو اختیار کر گیا ہے تاہم بہت سے بحران زدہ خطوں میں خواتین کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
مسلح بحرانوں سے بچاؤ، امن اور سلامتی کی سیاست میں خواتین کی شمولیت اور جنگ اور بحران زدہ علاقوں میں خواتین کو جنسی تشدد سے بچانا، یہ ہیں وہ اہم ترین مقاصد جن کے لئے قرارداد 1325 منظور کی گئی تھی۔ تاہم عملی صورتحال اس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔ ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس قرارداد کا اطلاق کس حد تک ہوا ہے۔
خواتین کو امن کی سیاست میں شامل کرنے کے بجائے اُنہیں مزید تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ یورپی یونین نے گرچہ بہت سے ٹھوس عملی اقدامات کئے ہیں، مثلاً دنیا کے مختلف خطوں میں یورپی یونین کے جو 13 امن مشن جاری ہیں، اُن تمام مشنز کے لئے تربیت اور جنسی امور سے متعلق مشاورت کا بندوبست کیا گیا ہے۔ تاہم یورپی کونسل کی ایک رکن اور انسانی حقوق کی ماہر کاترینا لائنونن کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے جاری امن مشن میں اکثر ایسے کارکن بھی بھیجے جاتے ہیں، جنہوں نے یہ تربیت حاصل نہیں کی ہوتی۔ اُن کے بقول،’ہم ایسے کارکنوں سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ بحران زدہ علاقوں میں جا کر ہماری جنسی پالیسی نافذ کریں گے۔‘
جرمنی میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے کی ایک اعلیٰ عہدیدار فراؤکے زائڈن اشٹکر کے مطابق دوران جنگ اور جنگ کے بعد کی صورتحال میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات ماضی کی طرح اب بھی بہت بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔ کانگو ہی نہیں بلکہ 14 سالہ خانہ جنگی کے شکار دوسرے افریقی ملک لائبیریا تک میں آج بھی خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔ ان میں سے اکثر متعدد بار جنسی زیادتیوں کا شکار ہونے کے سبب شدید نفسیاتی مسائل اور صدموں سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ، ایچ آئی وی اور ایڈز، غربت اور خود کو حقیر جاننا ان خواتین کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اُس پر ستم یہ کہ ان خواتین کو خود ان کے گھرانوں میں بھی امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور منشیات کا کاروبار کرنے والے مافیا گروپوں کے ہاتھوں بھی ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ یہ تمام عوامل بحران زدہ علاقوں کی تعمیر نو کے کاموں میں خواتین کے اہم کردار کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق سے متعلقہ امور کی ماہر فراؤکے زائڈن اشٹکر کے مطابق ایک تجزیاتی رپورٹ کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ افغانستان میں تعمیر نو کے کاموں پر مامور وہ ٹیمیں، جو افغانستان میں خواتین تک پہنچی ہیں اور ایسی خواتین اور دیگر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سر گرم رہی ہیں، ان کی کارکردگی کا معیار بہتر ثابت ہوا ہے اور اس طرح وہاں جاری امن مشن کی ساکھ بھی بہتر ہوئی۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1325 کے دس سال مکمل ہونے کی مناسبت سے عالمی امن اور استحکام کی سیاست میں خواتین کے کردار پر بحث کی گئی۔ خاص طور سے اس موضوع پر روشنی ڈالی گئی کہ آخر عراق، افغانستان، چیچنیہ، فلسطینی علاقوں اور کچھ عرصہ قبل تک سری لنکا میں خواتین خود کُش حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا۔ اس کے علاوہ نیپال اور السلواڈور جیسے ممالک میں خواتین عسکریت پسندوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام عوامل اُس روایتی سوچ کی نفی کرتے ہیں، جس کے مطابق وار زونز میں صرف مرد ہی ہتھیار اُٹھاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی بحران زدہ علاقوں اور بچوں کی صورتحال سے متعلق عہدیدار اور انڈر سیکریٹری جنرل رادھیکا کماراسوامی کے مطابق بحران زدہ خطوں میں لڑکیاں متعدد وجوہات کی بنا پر فوج میں داخل ہوتی ہیں۔ کچھ کو اُن کے گھروں سے اغوا کر لیا جاتا ہے، ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور کچھ کو جنگجو بننے پر بھی مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال شمالی یوگنڈا میں ’لارڈز ریزسٹینس آرمی‘ اور لائبیریا اور سیرا لیئون کے مسلح گروپ ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک