اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی بھارت پر سخت تنقید
21 اکتوبر 2020اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے بھارتی حکومت سے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے حقوق کی پاسبانی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیوں پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو دبانے کے بجائے ان کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ وہ اپنے فرائض اچھی طرح سے انجام دے سکیں۔
محترمہ مشیل نے انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کو مبہم قوانین کے اطلاق سے روکنے اور غیر ملکی مالی امداد پر پابندی لگانے جیسے حکومت کے اقدامات پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''بھارت میں طویل عرصے سے ایک مضبوط سول سوسائٹی رہی ہے، جو ملک اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں آگے آگے رہی ہے۔ لیکن مجھے تشویش ہے کہ اس وقت ملک کے مبہم قوانین ان آوازوں کو دبانے کے لیے تیزی سے استعمال ہو رہے ہیں۔''
کچھ روز پہلے ہی کی بات ہے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنشینل نے بھارت میں اپنا دفتر یہ کہہ کر بند کر دیا تھا کہ حکومت نے اسے اس قدر تنگ کر رکھا ہے کہ اب اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اس نے جو رپورٹیں جاری کی ہیں، حکومت اس سے برہم ہو کر اس کے پیچھے پڑی تھی اور اس نے ادارے کے تمام اکاؤنٹ سیل کر دیے جس کے بعد اس کے پاس دفتر بند کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
مودی کی حکومت کے آنے کے بعد سے ہی بھارت میں حقوق انسانی کی تنظیموں کے لیے زمین تنگ ہوتی چلی گئی اور نتیجتاً ایک اندازے کے مطابق سینکڑوں مقامی تنظیمیں بند پڑی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، گرین پیس اور آکسفیم جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے بھی اپنے آپریشنز کو محدود یا پھر مکمل بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بھارتی حکومت نے بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل کرنے سے متعلق ایف سی آر اے قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے بیشتر اداروں کے مطابق یہ قانون ایسے مبہم الفاظ پر مشتمل ہے کہ حکومت جس کے خلاف بھی چاہے اس کا استعمال کر سکتی ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ '' کسی بھی ایسی سرگرمی کے لیے جو مفاد عامہ کے لیے متعصبانہ ہو'' اس کے لیے بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل کرنا ممنوع ہے۔
جینوا میں انسانی حقوق کی کمشنر نے کہا کہ 2010 میں بنائے گئے اس قانون میں گزشتہ ماہ ترامیم کی گئی تھیں جس سے انسانی حقوق کی تنظیموں کے کام کاج پر نہ صرف برا اثر پڑاہے بلکہ ان کے لیے طرح طرح کی مشکلیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ انہیں وجوہات کے سبب حال ہی میں، ''ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ بند کر دیے گئے اور پھر مجبورا ًانہیں بھارت میں اپنا دفتر بند کرنا پڑا۔''
محترمہ بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ بیرونی فنڈز سے متعلق ایف سی آر اے قانون کا استعمال غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر پر حکومتی چھاپے مارنے، بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے اور تنظیموں کے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کے لیے ہوتا رہا ہے۔ اس کے تحت حکومت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی تنظیموں کے کام کاج میں دخل اندازی کا جواز بھی پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''مجھے تشویش ہے کہ مبہم طور پر بیان کردہ 'عوامی مفادات' کی بنیاد پر اس طرح کی کاروائیوں کے لیے اس قانون کو غلط طور پر استعمال ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حقیقت میں اس کا استعمال غیر سرکاری تنظیموں کو ایسے انسانی حقوق کے کام کاج اور ان کی وکالت سے روکنے یا پھر سزا دینے کے لیے ہوتا ہے، جس سے حکام پر نکتہ چینی ہوتی ہو۔ تعمیری تنقید تو جمہوریت کا اہم جز ہے۔ اگر حکام کو ناگوار بھی گزرے تو بھی اس کے لیے انہیں مجرمانہ کیسز فائل کرنے سے باز رہنا چاہیے۔''
بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں انسانی حقوق کے ارکین بھی شامل تھے اسی لیے حکومت نے دانستہ طور انہیں نشانہ بنایا اور ان مظاہروں کے سلسلے میں اب تک 1500 سے بھی زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے بیشتر پر سیاہ قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور حقوق انسانی کے علمبراداروں پر قدغن لگانے اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے یو اے پی اے جیسے سیاہ قانون کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے جواب میں کہا کہ ملک کو اپنی ضرورت کے مطابق قانون وضع کرنے کا حق ہے اور انسانی حقوق کی آڑ میں قانون کی خلاف ورزی کی حمایت نہیں ہونی چاہیے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے بھارتی جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔
ان کا کہنا تھا، '' ہم نے 'فارین کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ' (ایف سی ار اے) سے متعلق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیشن کے بعض بیانات دیکھے ہیں۔ بھارت میں جمہوری نظام پر مبنی قانون کی حکمرانی کے ساتھ ہی آزاد عدلیہ بھی ہے۔ قانون بنانا ہمارا اپنا حق ہے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں قانون کی خلاف ورزی کی تائید نہیں کی جا سکتی۔''