اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کے تحت پاکستان میں ایڈز کی صورت حال
5 فروری 2009اس اجلاس میں دنیا کے 189 ملکوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ اعلانیہ جاری کیا۔ جسے بنیاد بناتے ہوئے سال 2001 میں اقوام متحدہ نے 2015 تک دنیا کو آٹھ بڑے مسائل سے نجات دلانےکے لئے اہداف مقرر کئےتھے۔ ان اہداف کو ہزاریہ اہداف یا میلینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کا نام دیا گیا۔
2001 کے دوران HIV سے نئے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیس لاکھ تھی جو کہ 2007 کے دوران کم ہوکر ستائیس لاکھ ہوگئی۔
اقوام متحدہ کی جانب سے سال 2008 میں جاری شدہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 7ہزار 500 نئےافراد ایچ آئی وی سے متاثر ہوتے ہیں۔ جبکہ روزانہ 5 ہزار 500 افراد ایڈز کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سال 2001 میں دنیا میں ایچ آئی وی سے متاثر افراد کی تعداد دو کروڑ پچانوے لاکھ تھی جو سال 2007 میں بڑھ کر تین کروڑ تیس لاکھ ہوگئی ۔
اقوام متحدہ کے میلینیئم گولزکے تحت سال 2015 تک دنیا میں ایچ آئی وی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی انفیکشن کو نہ صرف روکنے بلکہ اس میں کمی لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں ہر سال ایچ آئی وی سے نئے متاثرین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔سال 2001 کے دوران HIV سے نئے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیس لاکھ تھی جو کہ 2007 کے دوران کم ہوکر ستائیس لاکھ ہوگئی۔
پاکستان میں ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثرہ افراد کی کیا صورتحال ہے اور حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کر رہی ہے۔ شامل ہے لاہور سے تنویر شہزاد کا جائزہ۔
زندگی سے محروم کر دینے والی خطرناک بیماری ایڈز کے خاتمے کے لئے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کوششیں جاری ہیں۔
پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر علی رزاق کہتے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ HIV یا ایڈز سے متاثرہ ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر لوگ اس بیماری کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ علی رزاق کے مطابق حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں HIVیا ایڈز سے متاثرہ افراد کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 4500 کے لگ بھگ ہے۔
ان کے مطابق اگر صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا رویہ ہمددرانہ ہو جائے اور وہ ایڈز کے مریضوں کو ہراساں نہ کریں اور شفقت سے پیش آئیں تو پھر لوگ اپنی بیماری چھپائیں گے نہیں اور زیادہ کیسز سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر علی رزاق کہتے ہیں کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد منشیات کے استعمال کی لئے ایک ہی سرنج استعمال کرنے کی وجہ سے اس مرض کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق کراچی، لاڑکانہ ،پشاور، سرگودھا ، لاہور اور کئی دیگر شہروں سے منشیات کے شکار افراد میں HIV ایڈز کی موجودگی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایڈز یا HIV سے متاثرہ افراد کی تعداد 80 ہزار سے زائد ہے۔ لیکن بعض غیر سرکاری ادارے یہ تعداد ایک لاکھ سے زائد بتاتے ہیں۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مینجر ڈاکٹر حسن عباس ظہیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایڈز کی روک تھام کے لئے جو کام ہو رہا ہے وہ اقوام متحدہ کی طرف سے دئے گئے ہزاریہ ترقیاتی اہداف یعنی ملینئم ڈیویلپمنٹ گولز کے عین مطابق ہے۔
ماہرین کے مطابق غیر محفوظ جنسی تعلقات ، غیر تشخیص شدہ خون کا انتقال اور آلودہ آلات اور اوزاروں کا استعمال بھی اس مرض کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ حمل کے دوران میں پیدائش کے وقت اور ماں کا دودھ پلانے سے متاثرہ ماں اپنے بچے کو اس وائرس سے متاثر کر سکتی ہے۔
پاکستان میں یہ مرض ان علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں منشیات کے عادی لوگوں میں آلودہ سرنج استعمال کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ ایسے علاقے جہاں بیرونی ملکوں سے آنے والے پاکستانی رہائش اختیار کرتے ہیں وہاں سے بھی ایڈز کے مریض سامنے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر علی رزاق کے مطابق وہ پاکستانی جو اپنے بیوی بچوں کے بغیر کئی کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم ہیں اگر وہ اس وائرس سے متاثر ہو جائیں تو انہیں پاکستان واپس بھجوا دیا جاتا ہے اور یہ لوگ ملک میں واپس آکر اس مرض کو پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ متاثرہ اشخاص اپنی بیویوں کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے بطن سے متاثرہ بچے جنم لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر علی رزاق کے مطابق پاکستان میں بچوں میں بھی HIV وائرس کی موجودگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں پھر نے والے بچے جو خوانچہ فروش ہیں ، ڈینٹنگ، پینٹنگ کا کام کر رہے ہیں، کوڑا کرکٹ اٹھا تے ہیں یا وہ بچے جو بھکاریوں کی صورت میں پیسے مانگ رہے ہیں۔ یہ سارے بچے کئی علاقوں میں جنسی اعتبار سے غیر اخلاقی رویے کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان میں بھی یہ بیماری پھیل رہی ہے۔ حکومت ان بچوں کو بچانے کے لئے خصوصی اقدامات کر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایڈز سے متاثرہ فرد کے کھانسنے ،اس کے برتنوں میں کھانا کھانے، اس کے کپڑے استعمال کرنے یا متاثرہ شخص کے ساتھ رہنے سے HIV وائرس دوسرے لوگوں میں نہیں متنقل ہوتا۔ ایڈز کے مرض سے بچنے کے لئے متاثرہ افراد کے استعمال شدہ بلیڈز اور دانتوں کے برش استعمال نہیں کئے جانے چاہیں ۔ کبھی ضرورت پڑے تو صرف تشخیص شدہ خون ہی لگوانا چاہیے۔ ٹیکہ لگوانے کی ضرورت پڑے تو ایسی سرنج اور سوئی استعمال کی جانی چاہیے جو صرف ایک دفعہ استعمال ہوئی ہو۔ایڈز سے بچاؤ کے لئے نشہ آور ادویات کے استعمال اور غیر محتاط جنسی تعلقات سے پرہیز ضروری ہے۔
ڈاکٹر علی رزاق کے مطابق حکومت نے HIV یا ایڈز کی تشخیص اور علاج کے ساتھ ساتھ عوام کی آگاہی کے لئے بہت سارے اقدات کئے ہیں۔
دوسری طرف HIV وائرس کی شکار شکریہ گل نامی ایک خاتون جو آج کل ایڈز کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ ہیں ان کا کہنا کہ ایڈز کی روک تھام کے لئے حکومتی دعوے قابل اعتبار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ملک کے دور دراز کے دیہی علاقوں میں موجود ایڈز کے مریضوں کو سرکاری سہولیات میسر نہیں ہیں اور غریب لوگ اپنی جیب سے ادویات خرید کر اپنا علاج کرانے کے لئے مجبور ہیں۔
ایڈز کے ایک مریض مرید حسین نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حکومت ایڈز کے مریضوں کی امداد کے حوالے سے زبانی جمع خرچ کر رہی ہے ۔اصل حقیت یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے ایڈز کے مریضوں کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ۔ اس کے مطابق اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایڈز کے مریضوں کو قبول نہیں کرتا ہے۔ اگر کسی کو ایڈز ہو جائے تو اس کی نوکری نہیں رہتی اور اس کی بچیوں کی شادی نہیں ہوتی اور رشتہ دار بھی اس کے خاندان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے حال ہی میں پنجاب کی ایک چھوٹے سے قصبے جلال پور جٹاں میں لگائے جانے والے ایک تشخیصی کیمپ میں انکشاف ہوا ہے کہ اس گاؤں کے لوگ بڑی تعداد میں HIV وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق جلال پور جٹاں کا یہ واقعہ ایڈز کی روک تھام کے حوالے سے موئثر کوششیں کرنے کے دعوے دار سرکاری اہلکاروں کی کارکردگی پر کھلا تبصرہ ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ایڈز کی روک تھام کے لئے حکومتی اقدامات کے باوجود لوگوں کو وہ سہولتیں اور علاج ابھی تک میسر نہیں ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔