1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’الاحرار الشام شام میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے‘

عاطف توقیر22 ستمبر 2015

گزشتہ برس شام میں جب ایک بم دھماکے میں احرار الشام کے تمام اہم رہنما مارے گئے، تو کہا جا رہا تھا کہ یہ گروہ اب ختم ہو گیا، تاہم یہ گروپ پھر سے فعال ہے اور رفتہ رفتہ طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GaUK
Terrorcamp in Syrien
تصویر: picture-allianceAP Photo

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی، تاہم گزشتہ برس ایک بم دھماکے میں ایک ہی جھٹکے میں اس گروہ کے تقریباﹰ تمام اہم رہنما مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد کہا جا رہا تھا کہ شاید اب یہ گروہ کبھی سر نہ اٹھا سکے، تاہم اس عسکری گروپ نے فوراﹰ ہی اپنے نئے کمانڈر کے نام کا اعلان کی اور دوبارہ طاقت پکڑنے لگا اور چند ہی ماہ میں اس نے دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ اتحاد کر کے اپنے قریب دو ہزار جنگجوؤں کے ساتھ ادلِب شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ گروپ اب اس علاقے میں سب سے زیادہ اثرورسوخ کا حامل ہے اور شدت پسندوں کے فتح آرمی نامی عسکری اتحاد میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس اتحاد میں القاعدہ کا شامی بازو النصرہ فرنٹ بھی شامل ہے۔ اب اس گروہ کے عزائم اور حوصلے اور بھی بلند ہو چکے ہیں۔

Syrien Rebellen Provinz Idlib
یہ گروہ ادلب صوبے میں طاقت کا حامل ہےتصویر: Reuters/M. Bayoush

ترکی کی زبردست حمایت کے حامل احرار الشام نامی یہ گروہ شام کی چار سال سے جاری خانہ جنگی میں اب انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے اور اسلامک اسٹیٹ کو چھوڑ کر دیگر شدت پسندوں گروہوں کے ساتھ مل کر شامی مستقبل میں بڑے کردار کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اس گروہ کے جنگجو باب الحوا نامی اُس سرحدی کراسنگ کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں، جو اب ترکی اور شام کے درمیان واحد قانونی سرحدی کراسنگ ہے۔ اس کے علاوہ حلب اور ادلِب میں بھی یہ گروہ انتہائی مضبوط ہے۔

روئٹرز کے مطابق احرار الشام جو عسکری کے علاوہ سیاسی بازو کا حامل بھی ہے، شامی تنازعے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ احرار الشام کا کوئی مرکزی ڈھانچہ نہیں ہے، اس لیے یہ گروپ دیگر گروہوں کے ساتھ الحاق کی صلاحیت رکھتا ہے اور مسقبل کی امن بات چیت میں اپنی آواز سامنے رکھ سکتا ہے۔

روئٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ احرار الشام کی قیادت شام پر حکومت کے حوالے سے عزائم نہیں رکھتی، تاہم یہ بات بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ شامی مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں اس گروہ کے نمائندے شامی حکومت اور لبنان میں سرگرم بشارالاسد کے حامی شیعہ گروہ حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات میں بھی مصروف رہے ہیں، جس میں حکومت کے زیرقبضہ شیعہ اکثریتی علاقوں کے مستقبل کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ یہ شیعہ علاقے ادلب صوبے میں باغیوں کے زیرمحاصرہ ہیں۔ یہ بات چیت دو مرتبہ ناکامی کا شکار ہو چکی ہے، تاہم ان مذکرات کا ترکی اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔