الجزائر میں چھاتی کے کینسر کی شکار ’آدھی عورتیں‘
2 جنوری 2018الجیرین خاتون لِنڈا تین بچوں کی ماں ہیں۔ لِنڈا کے لیے بریسٹ کینسر میں مبتلا ہو کر جسم کے ایک حصے سے محروم ہو جانا ہی کم تکلیف دہ نہیں تھا کہ ان کے شوہر نے انہیں ’مسخ شدہ‘ یا ’آدھی عورت‘ گردانتے ہوئے ٹھکرا دیا۔ پچاس سالہ میڈیکل اسسٹنٹ لنڈا کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سالہ رفاقت کو کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث ختم کر دینا ناقابل فہم ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق الجزائر میں کینسر کے مرض کی روک تھام کے لیے سرگرم ایک فلاحی ادارے کا کہنا ہے کہ اس ملک میں ہزاروں ایسی خواتین ہیں جنہیں اُن کے شوہروں نے سرطان میں مبتلا ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا ہے۔
ایک تیس سالہ خاتون حیا نے بتایا کہ جب اُس کے منگیتر کو پتہ چلا کہ حیا کو بریسٹ کینسر ہے اور اس باعث اسے سرجری کے عمل سے گزرنا ہو گا تو اُس نے اپنی منگیتر سے رشتہ ختم کر دیا۔ حیا نے آنسوؤں سے بھرے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا،’’ اُس نے مجھے کہا کہ اسے ایک پوری عورت چاہیے، تین چوتھائی نہیں۔‘‘
سمیعہ قاسمی نور الہدی نامی کینسر چیریٹی کی سربراہ ہیں۔ قاسمی کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین کو اُن کے شوہروں نے اس اذیت ناک مرض میں اکیلا چھوڑ دیا بلکہ بعض نے تو اُن کے سروں سے چھت ہی چھین لی۔
سمیعہ قاسمی کے مطابق یہ خواتین اپنی بیماری کو شرمناک تصور کرتی ہیں۔ چھاتی کے سرطان کی شکار ان تمام خواتین نے اے ایف پی کو اپنا خاندانی نام بتانے اور کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کر دیا۔
سوشیالوجسٹ یمینہ راہو کا کہنا ہے کہ ان خواتین میں شرم کے باعث یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے عضو سے محروم ہو گئی ہیں جو اُن کی نسوانیت کا آئینہ دار تھا۔
کینسر سے جنگ جیتنے والی لنڈا اپنے بچوں کی مدد سے اب نفسیاتی طور پر خود کو بہتر محسوس کرتی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ دراصل کینسر نے انہیں ایک ایسے شخص سے نجات دی جو انہیں مارتا پیٹتا تھا اور اُن کی تنخواہ چوری کرتا تھا۔