القاعدہ، بن لادن کی ہلاکت کے تین سال بعد
2 مئی 2014اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011ء کو امریکی فورسز نے پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں ایک خفیہ آپریشن کے نتیجے میں ہلاک کر دیا تھا۔ وہ اس عسکری علاقے میں چھ برس سے چھپا بیٹھا تھا۔
اس کی ہلاکت کو ایک دَور کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ کیا پاکستان نے بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی، لیکن یہ حقیقت القاعدہ کے لیے ایک بڑا دھچکا بنی کہ امریکا کو مطلوب ترین دہشت گرد مار دیا گیا تھا۔ پھر واشنگٹن حکومت نے اس دہشت گرد گروہ کے خلاف اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا جس نے دو دہائیوں تک امریکا کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔
تاہم یہ سوال آج بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آیا بن لادن کی موت سے القاعدہ کے کام پر کوئی حقیقی اثر پڑا؟ کیا یہ گروہ جنوبی ایشیا میں اب اس قدر طاقتور اور خطرناک نہیں رہا جتنا تین سال قبل تھا؟
واشنگٹن میں قائم وُڈرو سینٹر سے وابستہ اسکالر اور اسلام آباد پالسیی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ محققہ سنبل خان کا کہنا ہے کہ القاعدہ بن لادن کی موت سے پہلے ہی کمزور پڑ چکی تھی۔ ان کے مطابق افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے القاعدہ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی کارروائیاں محدود کر دی تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کی کارروائیوں نے القاعدہ کی نقل و حرکت کو مشکل بنا دیا تھا۔‘‘
لندن میں مقیم محقق اور انسدادِ دہشت گردی کے امور کے ماہر غفار حسین بھی سنبل خان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کا بن لادن کی موت سے پہلے ہی صفایا ہو گیا تھا۔
دوسری جان سنبل خان کے مطابق ایسا سوچنا بھی بے وقوفی ہو گی کہ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ سرے سے ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ان علاقوں میں یہ محدود ہے لیکن مقامی شدت پسند گروہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔‘‘
غفار حسین کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان یا TTP القاعدہ کے ساتھ کام کرنے والے اہم گروپوں میں سے ایک ہے۔ سنبل خان کہتی ہیں: ’’القاعدہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے نکل کر مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پہنچ گئی ہے۔ یہ رجحان بن لادن کی ہلاکت سے پہلے ہی شروع ہو گیا اور مئی 2011ء سے اس میں تیزی آئی۔‘‘
غفار حسین کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت ہی کمزور پڑی ہے، عالمی سطح پر اس کی دھاک تاہم تاحال برقرار ہے بلکہ شاید دنیا کے بعض خطوں میں اور بھی مستحکم ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’یہ گروہ نائجیریا، صومالیہ، شام اور عراق میں خاصا سرگرم ہے۔ مثلاﹰ شام میں یہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ہو سکتا ہے کہ القاعدہ برانڈ کا اب وہ اثر نہ رہا ہو لیکن بوکو حرام اور الشباب جیسے بہت سے گروہ القاعدہ کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔‘‘
سکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق القاعدہ کا موجودہ سربراہ ایمن الظواہری طویل العمری کے باعث اس دہشت گرد گروہ کی بحالی میں زیادہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔