1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکسی ناوالنی کو ممکنہ طور پر زہر دیا گیا، جرمن ڈاکٹر

25 اگست 2020

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مخالف الیکسی ناوالنی کا جرمنی میں علاج کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے ابتدائی ٹیسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں زہر دینے کی کوشش کی گئی۔

https://p.dw.com/p/3hSsB
Russland Moskau Oppositionsführer Nawalny
تصویر: Getty Images/AFP/K. Kudrayavtsev

الیکسی ناوالنی کو ہفتے کو ایک خصوصی ایئر ایمبولینس کے ذریعے سائبیریا کے شہر اومسک سے جرمن دارالحکومت برلن کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ چوالیس سالہ نوالنی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے سب سے نمایاں ناقد سمجھے جاتے ہیں۔

برلن کے شاریٹے ہسپتال، جہاں ان کا علاج ہو رہا ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ طبی شواہد سے لگتا ہے کہ انہیں ایسی نشہ آور دوا دی گئی، جس کا تعلق 'کولنسٹراس انِہیبٹرز‘ نامی کیمیلکز سے ہے۔

تاہم چند دن پہلے تک روس میں ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے ان کے جسم میں ایسے کسی کیمیکلز کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔

Berlin Charité Warten auf Nawalny in Deutschland erwartet
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

جرمن ڈاکٹروں کے مطابق الیکسی ناوالنی کی حالت تشویش ناک ہے لیکن ان کی زندگی خطرے سے باہر ہے۔ برلن کے ہسپتال کا کہنا ہے کہ ابھی یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں کس قسم کا زہر دیا گیا۔ تاہم خدشہ ہے کہ انہیں جو بھی مواد دیا گیا وہ ان کے 'نروس سسٹم‘ یعنی اعصابی نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔ 

الیکسی ناوالنی کی طبیعت پچھلے ہفتے جمعرات کو سائبیریا کے شہر ٹامسک سے ماسکو جاتے ہوئے ایک پرواز کے دوران اچانک خراب ہو گئی تھی۔ اس پرواز کو ہنگامی بنیادوں پر سائبیریا کے شہر اومسک میں اتارا گیا، جہاں ان کا ابتدائی علاج ہوا۔

الیکسی ناوالنی کے قریبی ساتھیوں کو شک ہے کہ انہیں ٹامسک کے ایئرپورٹ پر چائے میں زہر ملا کر دیا گیا۔ 

Russland | Alexei Navalny am Flughafen Richtung nach Deutschland
تصویر: Reuters/A. Malgavko

یورپی یونین نے 'ناوالنی کی زندگی پر اس مبینہ حملے‘ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یورپی یونین نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ناوالنی کو مبینہ طور پر زہر سے مارنے کے الزامات کی 'آزادانہ اور شفاف‘ تحقیقات یقینی بنائے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مطالبہ کیا ہے کہ مبینہ 'قتل کی اس کوشش‘ میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے جبکہ برطانیہ نے بھی اس معاملے کی 'مکمل اور شفاف‘ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔