الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوالات
23 نومبر 2023پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے فیصلہ پی ٹی آئی کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے.
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صرف پی ٹی آئی کونشانہ بنایا ہے جبکہ دیگر جماعتوں میں بھی انتخابات انتہائی غیر جمہوری انداز میں منعقد ہوتے ہیں اور ایک ہی خاندان کے افراد پارٹی کے اہم عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔
فیصلے کا پس منظر
رواں برس اگست میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو حتمی وارننگ دی تھی کہ وہ پارٹی انتخابات کرائے۔ بصورت دیگر اسے انتخابی نشان نہیں ملے گا۔ پارٹی کو بتایا گیا تھا کہ پارٹی آئین کے مطابق 13 جون 2021 ء میں انتخابات ہونے تھے لیکن پی ٹی آئی کو اس میں ایک سال کی توسیع دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان نے آج اسلام آباد میں میڈیا کو بتایا کہ پارٹی کے آئین میں ترمیم سے پہلے پارٹی نے انتخابات کرا لیے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن ماضی میں یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ پی ٹی آئی نے آئین آٹھ جون 2022ء میں تبدیل کیا اور پارٹی انتخابات 10 جون 2022 ء میں کرائے۔ اس کے برعکس بیرسٹر گوہر علی خان کا دعوی تھا کہ پارٹی کے آئین میں کی گئی اس تبدیلی کو بعد میں واپس لے لیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا نے کے بعد سات دن کے اندر کمیشن کو رپورٹ جمع کرائے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پارٹی نے شفاف اور منصفانہ انتخابات نہیں کرائے اور ان انتخابات میں بہت سارے اعتراضات ہیں اور یہ کہ ان انتخابات کو بالکل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
فیصلہ چیلنج کیا جائے گا
پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کرے گی۔ پارٹی کے وکلا ونگ کی ایک رکن مشعل یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہم اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جا رہے ہیں اور ہم کسی طور پر اسے تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘
کیا عمران خان پارٹی کی قیادت کر سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ جب سابق وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے ایک اور اپیل میں یہ فیصلہ بھی دیا تھا کہ ایک سزا یافتہ شخص پارٹی کی صدارت نہیں کر سکتا تو اس کے بعد نواز شریف کو پارٹی کی قیادت سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔
اب ملک کے کئی حلقوں میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا عمران خان تحریک انصاف کی چیئرمین شپ کا انتخاب لڑ سکتے ہیں یا نہیں۔الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹیری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں عمران خان پارٹی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ عمران خان کے ایک معتمد خاص فیصل شیر جان کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں جو عمران خان یا شاہ محمود قریشی کو پارٹی انتخابات لڑنے سے روکے۔ عمران خان کے وکیل شیر افضل خان مروت کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا مقابلہ عمران کے خلاف فیصلے سے نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواز شریف کو نا اہل براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا جبکہ عمران خان کو جس مقدمے میں سزا ہوئی ہے اس میں سزا معطل ہے۔‘‘
شیر افضل خان مروت کے مطابق اپیل کا مرحلہ دراصل ٹرائل کا تسلسل ہی ہوتا ہے۔ ان کے بقول،''جب تک سپریم کورٹ عمران خان کے خلاف حتمی طور پر اس سزا کو برقرار نہیں رکھتی، اس وقت تک عمران خان اپیل کے مرحلے میں ہوں گے، جو ایک طرح سے ٹرائل کا ہی تسلسل ہے، لہذا انہیں پارٹی کے انتخابات لڑنے سے قانونی طور پہ روکا نہیں جا سکتا۔‘‘
فیصلے کے مقاصد کیا ہیں؟
ملک کے کئی حلقوں میں یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ اس فیصلے کے مقاصد کیا ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ کچھ عناصر نہیں چاہتے کہ عمران خان پارٹی کی قیادت کریں۔ فیصل شیر جان کے مطابق اس فیصلے کا اس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو پارٹی کی قیادت سے روکا جائے۔ مشعل یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی بنیاد بدنیتی پر ہیں۔ ''اور اس کا بنیادی مقصد پارٹی کو انتخابات سے پہلے نقصان پہنچانا ہے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے یہ لگتا ہے کہ کچھ عناصر چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور رہنماؤں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سب کو پتہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سخت کریک ڈاؤن چل رہا ہے ان کے کارکنان اور رہنماؤں کو پکڑ پکڑ کے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے یا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم پارٹی کے اندر انتخابات کرائیں۔‘‘
محمد اقبال خان آفریدی کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ پارٹی انتخابات کی وجہ سے جو لوگ ابھی روپوش ہوئے ہوئے ہیں وہ منظر عام پر آئیں۔ ''اور پھر ان کو گرفتار کر کے ان کی وفاداریاں تبدیل کرائی جائیں یا ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جائیں۔‘‘
صرف پی ٹی آئی ہی کیوں
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مشرف کے دور سے لے کر اب تک جس بھی پارٹی کے اندر انتخابات ہوتے ہیں، اس میں پارٹی سربراہ کے خاندان کے افراد ہی تمام اہم عہدوں پر آ جاتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کو خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری سیاسی جماعتوں میں انتخابات شفاف طریقے سے ہوتے ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ نون میں یہ صرف ایک رسمی کاروائی نہیں تھی؟ تو صرف پی ٹی آئی کو ٹارگٹ بنانا کوئی انصاف نہیں ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے الیکشن کمیشن کے ذمہ داران سے کئی مرتبہ فون کے ذریعے رابطے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا اور نہ ہی اب تک تحریری سوالات کے جواب دیے ہیں۔