الیکشن کے مہینوں بعد بھی پنجاب مقامی حکومتوں سے محروم
19 مئی 2016پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے پہلے مرحلے کے انتخابات کو مکمل ہوئے تین مہینے ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک صوبے کے کسی بھی حصے میں نہ تو مخصوص نشستوں پر نوجوانوں، عورتوں ، کسانوں ، مزدوروں یا اقلیتی نمائندوں کا انتخاب عمل میں لایا جا سکا ہے اور نہ ہی شہروں کے میئرز اور ڈپٹی میئرز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیرمین اور وائس چیرمینز کو منتخب کیا جا سکا ہے۔
پنجاب میں تین ماہ قبل ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ نون کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس جماعت نے پنجاب اسمبلی میں اپنی عددی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے قانون میں تبدیلی کر دی۔ نئے قانون کے مطابق اب پنجاب میں نومنتخب کونسلرز اپنے ووٹ کے ذریعے مخصوص نشستوں پر بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب نہیں کر سکتے بلکہ ان انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد کے مطابق متناسب نمائندگی کے ذریعے مخصوص نشستیں انتخاب جیتنے والی متعلقہ پارٹیوں کو دے دی جائیں گی۔ آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد پنجاب حکومت کے لیے اس طریقے سے اپنے زیادہ سے زیادہ نمائندے منتخب کروانے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی دو اہم سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس نئی قانون سازی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا جہاں پر حکومتی وکیل مسلسل تاریخیں لے کر اور تاخیری حربے استعمال کرکے اس معاملے کو مزید تاخیر کا شکار کر رہے ہیں۔
مقامی حکومتوں کے نظام کے ماہر اور لوکل کونسلز ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انور حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب حکومت شروع سے ہی مقامی حکومتوں کے نظام کو لانے میں رکاوٹیں ڈالتی رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اب لگتا یہ ہے کہ حکومت پہلے بجٹ میں بھاری رقوم اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کرے گی پھر بجٹ کے بعد کورٹ سے فیصلہ آئے گا اور اس ضمن میں پیش رفت ہو سکے گی۔‘‘
انور حسین کے بقول اگر مقامی حکومتوں کا لولا لنگڑا نظام بحال بھی ہو گیا تو اس کا کردار صوبہ پنجاب میں زیادہ اہم نہیں ہو گا کیوں کہ پنجاب حکومت آئین کے آرٹیکل 141 کے تحت مقامی حکومتوں کو انتظامی، سیاسی اور مالیاتی اختیارات دینے کی بجائے ایک درجن سے زائد محکمے بنا کر انہیں مقامی حکومتوں کے اختیارات دے چکی ہے۔
نئی بننے والے مقامی حکومتوں کے پاس ٹرانسپورٹ، خوراک، ہارٹیکلچر، صحت، تعلیم اور ریونیو جیسے شعبوں کے اختیارات نہیں ہوں گے۔ انور حسین کا مزید کہنا تھا، ’’پنجاب کے وزیر اعلیٰ یہ اختیارات منتخب نمائندوں کو دینے کی بجائے سرکاری افسران کے ذریعے حکومتی معاملا ت چلانا چاہتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ علاقے کا کونسلر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی نسبت زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے علاقے کے سکول کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کس طرح بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی آئمہ محمود نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منتخب کونسلرز کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ نامناسب بات ہے۔ ان کے بقول پنجاب میں مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے سوشل سروسز کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ آئمہ کے مطابق، ’’صرف گندم کے کاشتکاروں کو دیکھ لیں، بیوروکریسی کے نظام نے گندم کی خریداری کے نظام کے ثمرات کو چھوٹے کاشتکاروں سے دور کر دیا ہے۔‘‘
مقامی حکومتوں کے تین ماہ پہلے ہونے والے انتخابات میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون کی یونین کونسل 207 میں جن لوگوں نے ووٹ ڈالا ان میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف بھی شامل تھے، شہباز شریف کے علاقے سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر یونین کونسل کے چئیرمین منتخب ہونے والے کرنل (ر) طاہر کاردار سے ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ مقامی حکومتوں کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو ان کا کہنا تھا، ’’مقامی حکومتوں کے انتخابات کا عمل مکمل نہ ہو سکنے کی وجہ سے 35 ہزارمنتخب نمائندے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے آرام فرما رہے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ محمد صادق جیسے پاکستانی لندن اور دوسرے ملکوں میں مقامی حکومتوں کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں لیکن پاکستان کے شہری اپنے ملک میں اس نظام کے ثمرات سے محروم ہیں۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے قانون کے تحت صوبائی حکومت کو بجٹ سے پہلے ’پروونشل فنانس کمیشن‘ کا اجلاس بلا کر مختلف اضلاع کی ضروریات کا جائزہ لے کر ان کے لیئے ترقیاتی فنڈز مختص کرنا ہوتے ہیں۔ تاہم گزشتہ کئی برسوں سے صوبائی حکومت یہ اجلاس منعقد ہی نہیں کر رہی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں مقامی حکومتوں کے محکمے کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ پنجاب حکومت مقامی حکومتوں کے قیام میں تاخیر کی ذمہ دار ہے۔ ان کے بقول پنجاب کے آئندہ بجٹ میں اس سلسلے میں فنڈز بھی رکھے جا رہے ہیں۔ ڈھلوں کے مطابق، ’’مقامی حکومتوں کے بارے میں عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی، ہم اس کا احترام کریں گے۔‘‘
سرکاری محکموں کو اختیارات دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مختلف محکموں کی خودمختار اتھارٹیاں قائم کرنے کا مقصد ان محکموں کو سیاسی اثرات سے پاک کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ’گلیاں اور سیوریج ٹھیک کروانے کی ذمہ داری مقامی حکومتوں کو واپس مل جائے تو صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان کی درد سری بہت کم ہو جائے گی‘۔
الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مخصوص نشستوں پر انتخابات کروانے کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے اس لیے نئی قانون سازی اور عدالت کی جانب سے جاری حکم امتناہی کے خاتمے کے بغیر انتخابات کا عمل آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
یاد رہے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے صوبوں میں مقامی حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں۔ جب کہ سندھ میں پنجاب کی طرح کی عدالتی چارہ جوئی کے بعد مقامی حکومتوں کے انتخابات کے اگلے مراحل آئندہ چند دنوں میں شروع ہونے والے ہیں۔