’امریکا اور آزادی اپنے سب سے بڑے وکیل سے محروم ہو گئے‘
26 اگست 2018جان مکین کے خاندان کے مطابق انہوں نے خود کو لاحق سرطان کے مرض کا علاج مزید جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مکین کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ اُن کا انتقال پچیس اگست کو مقامی وقت کے مطابق شام چار بج کے اٹھائیس منٹ پر ہوا۔
جان مکین کی اہلیہ سنڈی کا ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرا دل ٹوٹ چکا ہے۔ اپنی زندگی کی طرح ، وہ ہمیں اپنی ہی شرائط پر چھوڑ کر گئے ہیں، ان کے اردگرد وہی لوگ تھے، جن سے وہ سب سے زیادہ پیار کرتے تھے اور اس جگہ پر جسے وہ سب سے زیادہ پسند کرتے تھے۔‘‘
سابق ری پبلکن امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کا ان کی تعریف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے محب الوطن تھے۔ مکین کے دوست اور پارٹی کے ساتھی لنڈسے گراہم کا کہنا تھا، ’’امریکا اور آزادی اپنے سب سے بڑے وکیل سے محروم ہو گئے ہیں‘‘۔
اکیاسی سالہ ری پبلکن کی وفات پر ان کے سیاسی ڈیموکریٹ حریف بھی دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا، ’’بہت کم لوگوں کو اتنے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جتنے چیلنجز کا سامنا انہوں نے کیا ہے۔ ہمیں اسی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جیسا کہ انہوں نے کیا تھا۔‘‘
باراک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی قوم جان مکین کی مقروض رہے گی۔ اوباما اور جان مکین سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے جان مکین کی وفات پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں جان مکین اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ ہمارے دل اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘
جان مکین اپنی ہی سیاسی جماعت کے ڈونلڈ ٹرمپ کے شدید ناقد تھے۔ ٹرمپ کی روسی صدر سے ملاقات کے بعد جان مکین نے امریکی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مئی میں نیویارک ٹائمز اور دیگر امریکی اخبارات نے لکھا تھا کہ جان مکین نہیں چاہتے کہ صدر ٹرمپ ان کی آخری رسومات میں شرکت کریں۔
جولائی دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مکین کوئی جنگی ہیرو نہیں ہے کیوں کہ ویت نام جنگ میں اسے گرفتار کر لیا گیا تھا، ’’میں ان لوگوں کو پسند کرتا ہوں، جنہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔‘‘
ا ا / ص ح (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، آر ٹی آر)