امریکا اور ایران کے درمیان معاہدے کی قیاس آرائیاں تیز
4 مئی 2021حالیہ دنوں میں ایسے متعدد سفارتی رابطوں اور امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ بات چیت میں پیش رفت کی اطلاعات ہیں جن سے دونوں ملکوں کے درمیان کسی معاہدے کے قریب پہنچ جانے کی قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔
ویانا میں جاری مذاکرات کے دوران پیر کے روز گو کہ واشنگٹن اور لندن نے تہران سے آنے والی ان خبروں کو مسترد کردیا جن کے مطابق امریکا اور برطانیہ، ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو گئے ہیں۔ لیکن اس طرح کا تبادلہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اعتماد سازی کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرامریکا ایران جوہری معاہدے میں واپس آتا ہے تو یہ صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا اور متنازع فیصلہ ہوگا۔ یہ ایک ایسے معاہدے کو بحال کردے گا جسے صدر بائیڈن کے معاونین نے اوباما انتظامیہ کے دور میں ممکن بنایا تھا لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے نہ صرف الگ کرلیا بلکہ امریکا کو اس سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
اس معاہدے کی بحالی اور اس کے تحت ایران کو دی جانے والی مراعات اپوزیشن ریپبلیکن کے علاوہ اسرائیل اور امریکا کے عرب اتحادیوں کو بھی ناراض کر سکتی ہیں۔
ایسے وقت میں جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب پیر کے روز لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی اطلاعات کو مسترد کر رہے تھے، ٹھیک اسی وقت اعلیٰ امریکی سفارت کار مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ اس جوہری معاہدے کے دو بڑے حامی ڈیموکریٹ سینیٹرز کرس کونز اور کرس مرفی خطے کا دورہ کر رہے تھے۔
یہ ملاقاتیں ایک ہفتہ قبل واشنگٹن میں صدر جو بائیڈن، ان کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، ان کے نائب وینڈر شیرمین، ایران کے لیے نمائندہ خصوصی راب میلی اور دیگر کی اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے بعد کی جا رہی تھیں۔
اسرائیلی، امریکا کے ایران کے ساتھ کسی بھی مصالحت کے سخت مخالف ہیں۔ وہ اسلامی جمہوریہ کو یہودی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلوں کے ساتھ کم از کم تین الگ الگ میٹنگیں ہوئیں جن میں سے ایک جمعے کے روز موساد کے سربراہ یوسی کوہن کے ساتھ ہونے والی میٹنگ بھی شامل ہے جس میں صدر بائیڈن نے بھی حصہ لیا تھا۔ وائٹ ہاوس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے بتایا کہ کوہن کو ویانا میں ہونے والی بات چیت اور 'وہاں ہونے والی پیش رفت‘ سے آگاہ کیا گیا۔
اس کے بعد سنیچر کے روز ایران اور ایران سے وابستہ میڈیا اداروں سے یہ رپورٹیں آئیں کہ اس امر پر اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ ایران کے سن 2015کے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کرنے کے بدلے میں امریکا اسے کون کون سے مراعات فراہم کرے گا۔ ان میں ایران کے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ شامل ہے۔ اتوار کے روز قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک معاہدے کی خبریں سامنے آئیں۔
امریکی عہدیداروں نے گوکہ ان خبروں کی فوری طور پر تردید کرتے ہوئے انہیں قبل از وقت اور غلط قرار دیا تاہم جن پابندیوں کے حوالے سے ممکنہ راحت دی جا سکتی ہے ان کا عمومی علم سب کو ہے اور واشنگٹن نے ایران میں قید امریکیوں کو آزاد کرانے کے سلسلے میں اپنی خواہش کو کبھی راز میں نہیں رکھا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات میں محدود پیش رفت ہوئی ہے۔ بالواسطہ بات چیت میں راب میلی امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ میلی سن 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کے لیے بات چیت میں اوباما انتظامیہ کے کلیدی عہدیدار تھے۔ جب کہ شیرمن اور سویلین بھی خفیہ طور پر ہونے والی بات چیت میں شامل رہے تھے۔ جس کے بعد معاہدے کا راستہ ہموار ہوا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے ایران سے موصول ہونے والی خبروں کی تردید کی ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور قیدیوں کے تبادلے کا دعوی غلط ہے۔ وائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف رون کلین نے اتوار کے روز کہا" بدقسمتی سے یہ خبر درست نہیں ہے۔“
سویلین نے تاہم بات چیت کے بارے میں عوامی طورپر کوئی تبصرہ کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ”ویانا میں چیزیں ابھی غیر واضح ہیں۔" انہوں نے جمعے کے روز آسپن سکیورٹی فورم کی ورچوول میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایرانی بات چیت میں سنجیدہ ہیں۔
تجزیہ کارو ں کے مطابق مذاکرات کاروں کی جانب سے چوتھے دور کی بات چیت کے لیے جس طرح سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں ان سے یہ امید بندھتی ہے کہ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حامیوں کو کامیابی مل سکتی ہے جبکہ اس کے مخالفین اس پیش رفت سے پریشان ہیں۔
ج ا/ ص ز (ایسوسی ایٹیڈ پریس)