امریکا اور ترک تنازعہ، ٹرمپ کے رویے میں نرمی
15 جنوری 2019ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں ’وائی پی جی‘ کے موضوع پر ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے، جس کے بعد ٹرمپ کا دھمکی آمیز رویہ اب مصالحانہ طرز عمل میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ٹرمپ نے آج اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ترکی کے ساتھ اقتصادی روابط میں فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اتوار کے روز اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے شام میں سرگرم کُرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے خلاف فوجی کارروائی کی تو اسے اقتصادی طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔
تاہم اس دھمکی کے جواب میں ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا تھا کہ ترکی شام میں کُرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا اور کسی کی دھونس و دھمکی میں نہیں آئے گا۔
ان کے بقول وہ شمالی شام میں صدر ٹرمپ کی محفوظ علاقے کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔ ’وائی پی جی‘ کا موضوع گزشتہ کئی برسوں سے امریکا اور ترکی کے مابین وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔
ترک صدر کے ترجمان کے مطابق، ’’دہشت گرد آپ کے ساتھی اور اتحادی نہیں ہو سکتے۔ ترکی توقع کرتا ہے کہ امریکا ترکی کے ساتھ اپنی اسٹریٹیجک شراکت داری کا احترام کرے گا اور ترکی سے نہیں چاہتا کہ یہ تعاون دہشت گردوں کے پراپگینڈے کی وجہ سے متاثر ہو۔‘‘
امریکا کا موقف ہے کہ شام میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف وائی پی جی کو تعاون فراہم کرنا ضروری ہے۔ تاہم دوسری جانب انقرہ حکومت وائی پی جی کو ملکی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وائی پی جی دراصل کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا ہی حصہ ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترکی میں مسلح علیحدگی پسند تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔