امریکا اور چین کی تجارتی جنگ میں کیا جرمنی نقصان اٹھائے گا؟
6 اپریل 2018ڈی ڈبلیو: چین اور امریکا کا تجارتی تنازعہ اب کنٹرول سے باہر نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان یہ تجارتی تناؤ جرمنی کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟
ہولگر بنگ من: سب سے پہلے میں یہ کہوں کا کہ یہ تجارتی تنازعہ ہے تجارتی جنگ نہیں ہے۔ تجارت ہمیشہ فریقین کو قریب لاتی ہے انہیں الگ نہیں کرتی۔ جرمنی کے برآمد کنندگان کے لیے اس تنازعے کے براہ راست اثرات کم ہیں لیکن وہ جرمن کمپنیاں جو امریکا میں رہتے ہوئے چینی مارکیٹ کے لیے مصنوعات بناتی ہیں، مثلاﹰ کاریں بنانے والی کمپنیاں، اُن پر اس تنازعے کے یقیناﹰ منفی اثرات پڑیں گے۔
ڈی ڈبلیو: چین اور امریکا کے اس تجارتی تنازعے میں کیا جرمنی کو نقصان اٹھانا پڑے گا؟
ہولگر بنگ من: میں سمجھتا ہوں کہ جرمنی کو دیگر یورپی اداروں کے ساتھ مل کر دونوں فریقین کے درمیان اس تجارتی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔ اس مسئلے کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصول و ضوابط کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر صدر ٹرمپ محصولات میں اضافے کی اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا اثر جرمنی اور یورپی یونین پر بھی پڑے گا جو امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو: کیا آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ تجارتی تنازعہ اب بھی حل ہو سکتا ہے؟
ہولگر بنگ من: مجھے صدر ٹرمپ کی جذباتیت پر افسوس ہے۔ یہ سمجھنا میرے لیے ذرا مشکل ہے۔ میرے مشورہ ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر اور فیصلہ سازی میں درست ڈگر کا انتخاب کریں گے۔ پھر بھی میں کہوں گا کہ ابھی ایسا نقصان نہیں ہوا جسے پورا نہ کیا جا سکے۔ اگر چین اور امریکا لڑنے کے بجائے بات چیت سے مسئلے کو حل کریں تو یہ تنازعہ ختم ہو سکتا ہے۔