امریکا اور چین کے مابین تجارتی جنگ کا نیا موڑ
23 اگست 2018امریکی حکومت نے جمعرات کو چینی درآمدات پر مزید سولہ ارب ڈالر کے محصولات عائد کر دیے ہیں۔ یہ ایسا دوسرا راؤنڈ ہے کہ امریکا نے چین کی درآمدی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں۔ چین اور امریکا کے مابین اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دو طرفہ اقدامات فی الحال تو اس درجے کے ہیں کہ دونوں ممالک ہی انہیں برداشت کر سکتے ہیں لیکن اس تجارتی جنگ میں مزید وسعت پیدا ہو گئی تو پھر کیا بنے گا؟ کیا بیجنگ حکومت اس قابل ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھ سکے؟
دریں اثناء چینی کامرس ادارے نے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت امریکی اقدامات کا موثر جواب دیتی رہے گی۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی درآمدی مصنوعات پر بھی بلا تاخیر سولہ ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں۔ چین نے کہا ہے کہ ان کا نفاذ اسی وقت ہو گیا تھا، جب ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر اضافی ڈیوٹی عائد کی تھی۔
کئی تجزیہ کار چین کے جوابی اقدامات کو دانشمندانہ اقدامات قرار دینے سے گریزاں ہیں۔ جون میں امریکا نے پہلی مرتبہ چینی مصنوعات پر چونتیس بلین ڈالر کے اضافی محصولات عائد کیے تھے اور چین نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جوابی اقدامات اٹھائے تھے۔ جرمنی کی کولون یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات تھوماس ییگر کا کہنا ہے، ’’چین نے جواب دینے میں جلدی کی ہے۔ لیکن اب چینی اندرونی حلقے سوچ رہے ہیں کہ آیا ان کا ردعمل درست تھا؟‘‘ دوسری جانب متاثرہ چینی کمپنیاں بھی اس حوالے سے پریشان ہیں کہ یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟
چینی ماہر معاشیات لِن سیشی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرے خیال سے یہ تجارتی جنگ امریکا جیت سکتا ہے کیوں کہ وہ چین سے کہیں آگے ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چین کی آبادی زیادہ ہے لیکن امریکا کو تجارت میں خاصی بڑھت حاصل ہیں۔‘‘
بیالیس سالہ فنانس مینیجر چن جون کے مطابق دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور دونوں ہی اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب چینی رہنماؤں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ تجارتی جنگ وسیع ہوتی ہے تو آخر کار سب سے زیادہ امریکی معیشت کو ہی نقصان پہنچے گا۔ چند روز پہلے حکومت کے حامی امریکی اخبار گلوبل ٹائمز نے بھی تنبیہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’یہ تجارتی تنازعہ مڈل کلاس خاندانوں کو متاثر کرے گا اور غریب سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔‘‘
دوسری جانب چینی عوام بھی مشکل وقت کے لیے قبل از وقت تیاری کر رہے ہیں۔ بہت سے چینی یوآن جیسے اپنے اثاثوں کو ڈالر، یورو یا سونے میں تبدیل کر رہے ہیں۔
ا ا / ع ح (ڈی ڈبلیو، ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)