امریکا: ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر پابندی کی کارروائی ختم
10 جون 2021امریکی صدر جو بائیڈن نے نو جون بدھ کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں نوجوانوں میں کافی مقبول دو چینی موبائل ایپ ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر پابندی سے متعلق قانونی کیس پر روک لگا دی۔ اس قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں ان ایپ پر امریکا میں پوری طرح سے پابندی لگ سکتی تھی۔
ویڈیو شیئر کرنے والی چینی ایپ ٹک ٹاک 18 سے 25 برس کی عمر کے نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے ان پر پابندی عائد کرنے کے لیے حکم نامہ جاری کیا تھا۔
ٹرمپ کی دلیل تھی کہ چینی حکومت ان ایپ کی مدد سے ڈیٹا کی تفصیلات حاصل کر سکتی ہے اس لیے یہ ملک کی قومی سلامتی کے لیے یہ خطرہ ہیں۔ تاہم دونوں کمپنیوں نے چینی حکومت سے پوری طرح سے آزادی کا دعوی کرتے ہوئے بڑی سختی سے ان الزامات کی ترید کی تھی اور اس پابندی کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
جو بائیڈن کے تازہ فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کمپنیاں امریکا میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکتی ہیں۔ عدالتی چارہ جوئی اور اس حوالے سے قانونی دستاویزات کے مطابق حکام کو اب پہلے کے مقابلے ان ایپ کے مسائل کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہیں۔
لیکن بائیڈن کے تازہ ایگزیکیٹیو آرڈر میں محکمہ کامرس کو بیرونی ممالک کی ایسی ایپس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے اور ان سے ''ناقابل قبول خطرات'' پر اچھی طرح سے غور کر نے کو بھی کہا گیا ہے۔ اس میں بیرونی ممالک سے منسلک سافٹ ویئر ایپس کے لین دین کا جائزہ لینے کے معیار بھی شامل ہیں، جو عام طور پر امریکہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمیٹی کے ماتحت آتے ہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت و شواہد کے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ دونوں ایپ، ''قومی سلامتی، خارجہ پالیسی، اور امریکی معیشت کے لیے شدید خطرہ ہیں۔''
پیغام رسانی کے لیے معروف ایپ وی چیٹ کے عالمی سطح پر ایک ارب سے بھی زیادہ صارف ہیں اور کمپنی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی مجموعی آمدن کا امریکا سے صرف دو فیصد ہی حصہ آتا ہے۔ ویڈیو شیئر کرنے والی ایپ ٹک ٹاک کے دنیا بھر میں تقریباً 80 کروڑ صارف ہیں جس میں سے تقریباً دس کروڑ امریکی ہیں۔
ٹک ٹاک کی مالک کمپنی 'بائٹ ڈانس' ٹرمپ کے حکم نامے کے بعد سے ہی اوریکل اور وال مارٹ جیسی بڑی امریکی کمپنیوں سے اپنے اثاثے انہیں منتقل کرنے کے لیے ایک معاہدہ کرنے کے لیے کافی دنوں سے بات چیت کرتی رہی تھی تاکہ امریکا میں وہ مکمل پابندی سے بچ سکے۔ اب اگر بائیڈن انتظامیہ نے چینی سافٹ ویئر کمپنیوں کے ساتھ رویہ تھوڑا نرم رکھا تو شاید اس معاہدے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ٹیکساس یونیورسٹی میں قانون کے ماہر پروفیسر بابی شینزے نے بائیڈن کے اس فیصلے کو، ''ایک بہترین درمیانی راستہ قرار دیا ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے اس خطرے کی نوعیت اور اس سے نمٹنے کے لیے پابندیوں کو استعمال کرنے کا جائزہ لے لیا ہے۔ ''انہوں نے اس سلسلے میں بعض پابندیوں کو استعمال کرنے کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے... تاہم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور قابل دفاع ریکارڈ کے ساتھ۔''
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)