امریکا: پاکستانیوں کا استحصال اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں
4 فروری 2019کتنا بنتا ہے؟
’’سات گھنٹے ایکسٹرا پچھلے ہفتے کا‘‘
ہاں! تو دس ڈالر کے حساب سے لے لو۔ گھنٹے کا کتنا لے رہے ہو، دس ڈالر نہ؟ تو تمہارے بنے ستر ڈالر ایکسٹرا، مالک نے نوجوان مزدور سے کہا۔
نیویارک شہر سمیت ریاست میں ہر جگہ نمایاں مقامات پر، زیر زمین ریلوے اسٹیشنوں کے ڈیجیٹل سائینز بورڈز پر، میڈیا میں، بسوں پر اور مارکیٹوں میں یہ اعلان ہو رہا ہےکہ اکتیس دسمبر سے مزدور کی فی گھنٹہ اجرت قانونی طور پر کم سے کم پندرہ ڈالر مقرر کی گئی ہے۔
امریکا میں کئی عشروں سے ’’گھنٹے اور تنخوا‘‘ کے نام سے موجود قانون کے مطابق ملازمت کے لیے روزانہ آٹھ گھنٹے یا ہفتے کے چالیس گھنٹے مقرر ہیں۔ آٹھ گھنٹے یومیہ سے زیادہ، جو بھی کام ہے، اس کے لیے فی گھنٹہ اجرت ڈیڑھ گنا زائد ادا کی جائے گی جبکہ سرکاری یا عام تعطیل پر فی گھنٹہ مزدوری کی اجرت دو گنا ادا کی جاتی ہے۔
یہ بھی محنت کشوں سے متعلق بنائے گئے قوانین میں سے ایک ہے کہ آٹھ گھنٹے کام کرنے والے مزدور کو ہر پانچ گھنٹے کے بعد تیس منٹ کا وقفہ اور کئی ریاستوں میں اس کے علاوہ پندرہ منٹوں کے دو وقفے ملیں گے۔ کھانے کا وقفہ اگر کسی قانونی وجہ یا بوجہ غفلت آجر کے طرف سے نہیں دیا جاتا تو ان تیس منٹوں کی جگہ اسے ایک گھنٹے کی تنخواہ ادا کی جائے گی۔
لیکن عام طور پر ’دیسیوں کے کاروبار‘ میں (دیسی کا مطلب پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی، نیپالی، تبتی تارکین وطن) محنت کشوں کے لیے ایسے قوانین کا اطلاق ایک خواب ہے۔ بلکہ اس کا خواب دیکھنا بھی اکثر روزگار سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔
ریستوران ہوں کہ گیس اسٹیشن، اسٹورز ہوں کہ کار واش سینٹر، تعمیراتی کاموں، سپر مارکیٹوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں دیسی مزدوروں سے اکثر آٹھ کیا بارہ بارہ اور سولہ سولہ گھنٹوں تک کام لیا جاتا ہے لیکن اُوور ٹائم یا اضافی گھنٹوں کی قانونی طور مقرر کردہ ادائیگی تو درکنار کم از کم یومیہ اجرت بھی شازو نادر ہی ادا کی جاتی ہے۔
اگر مزدور امریکا میں بغیر دستاویزات کے ہے تو پھر مالکان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ بغیر دستاویزات والے ملازم رکھیں، جو اپنی حق تلفی پر امریکی حکومتی اداروں کے پاس شکایت بھی نہ کر سکیں۔ ایسے مالکان بغیر دستاویزات والے اپنے مزدوروں کو اس خوف و ہراس میں مبتلا کیے رکھتے ہیں کہ متعلقہ امریکی اداروں کو شکایت کرنے پر ان کی امیگریشن حیثیت اور دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے ان کو امریکا بدر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کئی مالکان خود کو پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے بھی جوڑے رکھتے ہیں۔
سن دو ہزار سولہ میں نیویارک میں بروکلین ڈسٹرکٹ عدالت نے اسکولوں کی تعمیرات میں مزدوروں کے معاوضے ہڑپ کرنے پر تعمیراتی کمپنی کے پاکستانی نژاد مالک کو چھیانوے ماہ قید کی سزا سنائی تھی جبکہ اس کے اکہتر لاکھ ڈالر امریکی حکومت نے ضبط کر لیے تھے۔
سن دو ہزار تیرہ میں ایک بڑے آپریشن کے ذریعے سیون الیون کنویننس اسٹوروں کی چین پر امریکی حکام کے چھاپوں کے بعد چودہ دکانوں کو بند کردیا گیا تھا۔ جن کا استحصال کیا جا رہا تھا، ان میں اکثریت پاکستانی مزدوروں کی تھی۔ امریکی حکام نے ان دکانوں کے مالک پاکستانی جوڑے کو گرفتار کیا تھا۔ امریکی عدالتی دستاویزات کے مطابق اس جوڑے نے ایک سو اسی ملین ڈالر کمائے تھے جبکہ کام کرنے والے پچاس مزدوروں کو سو سو گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے کے فقط اڑھائی سے تین سو ڈالر ادا کیے جاتے تھے۔
اسی سال نیویارک میں جنوبی ایشیائی تارکین وطن اور محنت کشوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’دیسی رائیزنگ‘ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اسی فیصد سے زائد جنوبی ایشیائی تارکین وطن مزدور ریٹیل اسٹوروں پر کام کرتے ہیں اور انہیں ساڑھے چار ڈالر سے ساڑھے سات ڈالر فی گھنٹہ ادا کیے جاتے ہیں۔ لیکن میری تازہ تحقیق کے مطابق ان دنوں جنوبی ایشیائی مزدورں کو بمشکل سات سے دس ڈالر تک فی گھنٹہ ادا کیے جاتے ہیں۔
بھارتی ریٹیل چین ’پٹیل‘، جو شمالی امریکا کی ہر بڑے چھوٹے شہر میں ہے، وہاں بھی عام ملازمین کو سات سے دس ڈالر فی گھنٹہ اجرت غنیمت سمجھی جاتی ہے۔ اوور ٹائم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیویارک میں ان اسٹوروں پر ڈلیوری کرنے والے عمر رسیدہ افراد کو دو سے پانچ ڈالر فی گھنٹہ بھی بمشکل ملتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر گزارہ ٹِپس پر ہوتا ہے۔
حال ہی میں نیویارک میں مشہور ریٹیل چین ’’اپنا بازار‘‘ نے جب اپنے اسٹور کی توسیع کے لیے ایک نیا اسٹور ’’سبزی منڈی‘‘ خریدا، تو چوبیس گھنٹے چلنے والے ’’سبزی منڈی‘‘ اسٹور کے ملازمین کو فارغ کر دیا گیا۔
ان میں سے ایک محنت کش، جو اٹھارہ سال سے اسی اسٹور پر کام کر رہا تھا، نے بتایا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو راتوں رات نکال دیا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اسے اتنے برس ملازمت کرنے کے باوجود کوئی واجبات ملے؟ تو اس نے کہا نہیں! کیونکہ کہ اس کے پاس امیگریشن کاغذات ہی نہیں ہیں۔ مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والا یہ تارک وطن اب جیکسن ہائٹس کی ہوم لیس کمیونٹی میں شامل ہو چکا ہے۔