امریکا کی ایران کے خلاف سفارتی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟
17 جون 2019امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا، ''ہم ایسے ممالک کو ایک ساتھ ملانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کی آبنائے ہرمز کے کھلے رہنے میں گہری دلچسپی ہے اور جو چاہتے ہیں کہ ہم اس میں ان کی مدد کریں۔ ان کے بقول ‘‘ گزشتہ روز یعنی اتوار کو میں نے کچھ رہنماؤں سے ٹیلیفون کے ذریعے بات چیت کی اور آج پپر کو مزید فون کیے جائیں گے۔ دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ‘‘ ۔ تاہم اس دوران انہوں نے یہ نہیں بتایا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اس تناظر میں کیا ارادے رکھتی ہے۔
مائیک پومپیو کی جانب سے فون کالز میں یورپی اور ایشیائی رہنماؤں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گزشتہ ہفتے خلیج عمان میں دو آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں میں ایران ملوث ہے۔ امریکا نے اس واقعے میں ایران کے پاسداران انقلاب کو مورد الزم ٹھہرایا ہے۔ تہران حکومت نے تاہم اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے امریکا سے کہا ہے کہ وہ دنیا کو ایران سے خوفزدہ کرنے کی مہم سے باز رہے۔
اس سے قبل بھی متحدہ عرب امارات کے قریب پانیوں میں چند بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں دو سعودی آئل ٹینکرز تھے۔ اس واقعے کا الزام بھی ایران پر عائد کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ دنیا میں سمندری راستے سے تیل کی مجموعی تجارت کا 40 فیصد آبنائے ہرمز کے علاقے سے ہی گزرتا ہے۔ ایران اس سے قبل خلیج فارس کی اس تنگ آبی گزرگاہ کو بند کرنے کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا مشرق وسطی کی تازہ کشیدگی کے تناظر میں نئے امریکی دستوں کو تعینات کیا جا سکتا ہے پومپیو نے کہا کہ 'ہاں‘ ایسا ممکن ہے۔ ان کے بقول بحری جہازوں کی آمد و رفت کو بحال رکھنے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ پومپیو نے اس موقع پر واضح کیا کہ توانائی کی امریکی ضروریات کا بہت ہی کم حصے کا درومدار اس آبی گزرگاہ پر ہے۔