1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا گوانتانامو کے حراستی مرکز کی بندش کے لیے اقدامات کرے، وکلا

13 مارچ 2013

امریکی حراستی مرکز گوانتانامو میں موجود بعض قیدیوں کے وکلا کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت اس قیدخانے کی بندش کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ یہ بیان وہاں گزشتہ کچھ روز سے ’انسانی بحران‘ کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/17vow
تصویر: picture alliance/Everett Collection

اس متنازعہ حراستی مرکز میں قید ایک یمنی قیدی کے وکیل صفائی اور امریکا کے مرکز برائے دستوری حقوق سے وابستہ عمر فرح نے کہا کہ گوانتانامو کے حراستی مرکز میں صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ ’’ہمارے موکل وہاں مر سکتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ امریکا انہیں وہاں سے منتقل نہیں کر سکتا بلکہ ہماری حکومت ایسا کرنا نہیں چاہتی۔‘‘

انہوں نے اس حراستی مرکز میں بعض قیدیوں کی جانب سے جاری بھوک ہڑتال کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں ’زیادہ تر افراد‘ بھوک ہڑتال پر ہیں۔

فرح نے کہا، ’يہاں پر موجود قیدی، جیل کی بری حالت، مذہبی اشتعال انگیزی اور اس خیال سے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے گیارہ برس گزر جانے کے باوجود ان کے سامنے روشنی کی کوئی موہوم سی امید بھی نہیں، پرامن انداز سے احتجاج کر رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ فرح اور دیگر وکلا ایک کمیشن چاہتے ہیں جو امریکی ریاستوں کی تنظیم کی ایک شاخ ہو اور جس کے پاس یہ اختیارات ہوں کہ وہ شمالی اور جنوبی امریکی ممالک کو اس حراستی مرکز کے دورے اور یہاں موجود قیدیوں سے گفتگو کا موقع فراہم کرے۔

عمر فرح نے کہا کہ صدر باراک اوباما، جنہوں نے اپنی پہلی صدارتی مہم میں اس کیمپ کی بندش کے ارادے کا اظہار کيا تھا، ان وعدوں پر عمل درآمد کی بجائے بہانے اور جواز ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو اس کیمپ کی بندش کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے واضح شواہد اور ٹھوس اقدامات سامنے لانے چاہیں۔

واضح رہے کہ گوانتانامو میں قید متعدد قیدیوں کی منتقلی، کسی دوسرے ملک کی جانب سے قبول کرنے پر آمادگی اور امریکا میں اس حوالے سے موجود منقسم سیاسی آراء اس قیدخانے کی بندش کی راہ میں اب تک رکاوٹ تصور کیے جاتے رہے ہیں، تاہم اس قید خانے سے کچھ قیدیوں کو امریکا لے جا کر وہاں پر مقدمات بھی چلائے گئے ہیں۔

at/as (AFP)