’امریکہ اتحادی سے محروم ہوسکتا ہے‘
23 ستمبر 2011گزشتہ کچھ دنوں سے امریکہ کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت براہ راست انداز میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر انگلیاں اٹھانے لگی ہے۔ اس سے قبل بالواسطہ انداز میں قدرے نچلے درجے کی قیادت یہ نکتہ چینی کرتی تھی کہ پاکستان سے افغانستان میں مداخلت کرنے والے عسکریت پسندوں کے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے مراسم ہیں۔ نیویارک میں اخباری نمائندوں سے گفتگو میں کھر کا کہنا تھا، ’’ آپ (امریکہ) پاکستان کو اور پاکستانی عوام کو خارج نہیں کرسکتے، اگر آپ اپنی خواہش کے تحت ایسا کریں گے تو اس کی قیمت بھی آپ ہی کو چکانا پڑے گی۔‘‘
حنا ربانی کی یہ بات امریکی فوج کی مشترکہ کمان کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کے بیان کا جواب تھی۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین مولن نے امریکی سینٹ میں دیے گئے بیان میں کہا کہ آئی ایس آئی اور عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ مولن کے بقول رواں ماہ کی ۱۳ تاریخ کو کابل میں امریکی سفارتخانے پر عسکریت پسندوں کے حملے میں آئی ایس آئی ملوث ہے۔
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بڑھنے والا تناؤ ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ بیان بازی کا یہ نیا سلسلہ چل پڑا ہے۔ حنا ربانی کھر نے تسلیم کیا کہ آپریشنل سطح پر دونوں ممالک کے مابین بہت سی مشکلات موجود ہیں۔ بھارتی ٹیلی وژن چینل این ڈی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کھر کا کہنا تھا کہ انگلیاں اٹھانے سے بات نہیں بنے گی، پاکستان عسکریت پسندی کے مقابلے پر پختگی سے لڑ رہا ہے اور ایک ذمہ دار ملک بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ طویل عرصے سے ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ان دو ممالک کے تعلقات کے یکسر منقطع ہوجانے کا امکان نہیں۔ امریکہ کے لیے پاکستان خطے میں ایک اہم اتحادی، افغانستان متعین افواج کے لیے اہم رسدگاہ اور ڈرون طیاروں کا اہم اڈہ ہے۔ ویسے ہی امریکہ پاکستان کے لیےمالی امداد اور سیاسی سرپرستی کے حوالے سے اہم ترین حلیف ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق