امریکہ اور روس جوہری ہتھیاروں میں تخفیف پر متفق
6 جولائی 2009امریکی صدر باراک اوباما اپنے دور صدارت میں پہلی مرتبہ روس کے دَورے پر ماسکو پہنچے جہاں باراک اوباما نے روسی صدر دمتری میدویدیف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں روس نے افغانستان میں سرگرم عمل غیر ملکی افواج تک سامان کی ترسیل کے لئے امریکہ کو راہداری دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی ساتھ ہی دونوں صدور کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پایا جس کے تحت نیوکلیائی اسلحے میں کمی کی جائے گی۔
امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی اسلحے میں تخفیف کے سٹارٹ وَن معاہدے کی مدت اِس سال کے آخر میں ختم ہو رہی ہے اور اب دونوں ملک اِس کے بعد کی صورتِ حال طے کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما اپنی مدتِ صدارت میں آج پہلی مرتبہ روس کے دَورے پر ماسکو پہنچ رہے ہیں۔ اُن کے اِس دَورے کے ایجنڈے میں تخفیفِ اسلحہ کا موضوع سرِ فہرست ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی اسلحے میں تخفیف کے سٹارٹ وَن معاہدے کی مدت اِس سال کے آخر میں ختم ہو رہی ہے اور اب دونوں ملک اِس کے بعد کی صورتِ حال طے کرنا چاہتے ہیں۔
اوباما نے اِس سال بطور صدر اپنا عہدہ سنبھالتے ہی ماسکو حکومت کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کا ذکر کیا تھا۔ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران قفقاز کے ملک جارجیا کی جنگ اور یورپ میں راکٹ شکن نظام کی تنصیب کے امریکی منصوبوں کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات کافی خراب ہو گئے تھے۔ ابھی گذشتہ مہینے روسی صدر دمتری میدویدیف نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ اگر امریکہ تخفیفِ اسلحہ کے ایک نئے معاہدے کا خواہاں ہے تو اُسے روس کے خدشات کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔
تاہم جرمن تنظیم برائے خارجہ سیاست DGAP کے روسی امور کے ماہرAlexander Rahr کے مطابق موجودہ روسی قیادت آج کل بیرونی سے زیادہ اندرونی چیلنجوں پر توجہ دے رہی ہے۔ الیگذانڈر راہر کا کہنا ہے کہ آج کے روس میں داخلی سیاسی چیلنجوں کو ایک با ر پھر اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے کیونکہ اوباما کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے گذشتہ ہفتوں اور مہینوں میں مغربی دُنیا کے ساتھ روس کے تعلقات بہتر ہو گئے ہیں۔
آج کی روسی قیادت بے روزگاری، بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج، آبادی میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے مسائل کو قومی سلامتی کے لئے زیادہ بڑے خطرات تصور کر رہی ہے۔
امریکی صدر کے طور پر باراک اوباما کا موجودہ روسی دورہ اب تک پانچواں غیر ملکی دَورہ ہے، جس میں تخفیفِ اسلحہ کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی موضوعات زیرِ بحث آئیں گے۔
ماسکو میں اپنے دو روزہ قیام کے بعد اوباما آٹھ امیر ترین صنعتی ملکوں کے گروپ جی ایٹ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے اٹلی کے شہر لاقیلا جائیں گے، جہاں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ عالمگیر اقتصادی بحران، ماحولیاتی مسائل اور ایران کی صورتِ حال پر بھی بات کی جائے گی۔
اٹلی میں اپنے قیام کے دوران اوباما پہلی مرتبہ کیتھولک کلیسا کے سربراہ اور پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔ اِس کے بعد اوباما گھانا جائیں گے، جو کہ امریکی صدر کے طور پر اُن کا کسی افریقی ملک کا پہلا دَورہ ہو گا۔