سوشل میڈیا استعمال کرنے کے لیے والدین کی اجازت درکار ہو گی
24 مارچ 2023یہ قانون اگلے برس مارچ سے نافذ العمل ہو گا۔ یہ قانون نوجوانوں میں سوشل میڈیا استعمال کرنے کی بڑھتی عادت، آن لائن ہراسانی، استحصال اور بچوں کے نجی کوائف ذاتی ڈیٹا کو جمع کرنے جیسے سیکورٹی خطرات کے خدشات کی وجہ سے بنایا گیا ہے۔
تاہم ٹیکنالوجی کمپنیوں اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس قانون سے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے آن لائن وسائل تک رسائی محدود ہو سکتی ہے اور آزادی اظہار پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
فیس بک کا قیمتاً بلیو چیک 'تصدیق شدہ' سروس کا اعلان
جمعرات کو ایک تقریب میں ان قوانین سے متعلقہ بلوں پر دستخط کرنے والے مغربی امریکی ریاست کے گورنر سپینسر کاکس نے ٹویٹ کیا، ’’ہم اب سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہمارے نوجوانوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
ان ضوابط میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بچوں کے فوری اکاؤنٹس کھول دیے کے عمل پر ’کرفیو‘ نافذ کریں اور والدین کو اپنے بچوں کے اکاؤنٹس تک مکمل رسائی بھی فراہم کریں۔
علاوہ ازیں قانون میں ’عادی بنانے والے ایلگورتھم‘ استعمال کرنے والی سوشل میڈیا کمپنیوں پر جرمانہ عائد کرنے اور بچوں کو مالی، جسمانی یا جذباتی نقصان پہنچنے کی صورت میں والدین کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا عمل آسان بنایا گیا ہے۔
اس قانون کے شریک محرک ریاستی نمائندے جورڈن ٹوئیشر نے کہا، ’’ہمیں امید ہے کہ یہ صرف پہلا قدم ہے ان بہت سے قوانین کی جانب جو ہم ملک بھر میں دیکھیں گے، اور امید ہے کہ وفاقی حکومت اس پر عمل کرے گی۔‘‘
یوٹاہ کی سینیٹ کے ریپبلکن رکن مائیکل میک کیل نے بتایا کہ دونوں امریکی سیاسی جماعتوں نے مل کر قانون سازی کی ہے۔ انہوں نے صدر جو بائیڈن کے حالیہ ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب کی تعریف بھی کی جس میں انہوں نے اسی مسئلے پر بات بھی کی تھی۔
بائیڈن نے گزشتہ ماہ امریکی قانون سازوں پر زور دیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے بچوں کے لیے اشتہارات دینے اور ان کا ڈیٹا جمع کرنے کے طریقہ کار کو محدود کریں۔ صدر بائیڈن نے ٹیک کمپنیوں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’منافع کمانے کے لیے‘ ملک کے نوجوانوں پر تجربات کر رہی ہیں۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا پہلے ہی آن لائن سیفٹی قوانین متعارف کرا چکی ہے جس میں نابالغوں کے لیے سخت ’ڈیفالٹ پرائیویسی سیٹنگز‘ بھی شامل ہیں، تاہم یوٹاہ کا قانون اس سے بھی سخت ہے۔
اوہائیو اور کنیکٹیکٹ جیسی ریاستوں کے قانون ساز بھی اسی طرح کے قوانین پر کام کر رہے ہیں۔
انسٹاگرام اور ٹک ٹاک سمیت مختلف پلیٹ فارمز نے والدین کے لیے میسیجنگ اور وقت کی حد مقرر کرنے جیسی کئی سہولیات متعارف کرائی ہیں۔
جمعرات کو یوٹاہ میں ہونے والی تقریب میں میک کیل نے امریکی ’سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن‘ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ایپس نوجوان ذہنوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میری دو بیٹیاں ہیں اور ہماری بیٹیوں پر مرتب ہونے والے اثرات ناقابل یقین حد تک پریشان کن تھے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک ہماری 30 فیصد بیٹیوں نے خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا۔ یہ بہت پریشان کن ہے۔‘‘
ش ح/ع ا (اے ایف پی)