1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ میں افغانستان کی’داخلی تقسیم‘ کا تذکرہ

28 جولائی 2010

افغان جنگ کے بارے میں ’وکی لیکس‘ کے ذریعے کئی سالہ تفصیلات پر مشتمل خفیہ دستاویزات منظر عام پر آنے کےبعد امریکہ میں یہ باتیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ امریکہ کو افغانستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا چاہیے ۔

https://p.dw.com/p/OVbM
تصویر: AP

’پولیٹیکو‘ نامی جریدے میں اپنے ایک کالم میں اسی مہینے کے وسط میں معروف تجزیہ نگار روبرٹ بلیک وِل نے لکھا کہ امریکہ کو افغانستان کو ریاستی جغرافیائی سطح پر تو نہیں لیکن داخلی انتظامی حوالے سے ہندوکش کی اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردینا چاہئے۔

Blackwill کے بقول ان میں سے ایک حصہ زیادہ تر جنوبی افغانستان کے اس علاقے میں مشتمل ہونا چاہئے، جہاں پشتو بولی جاتی ہے اور جو طالبان باغیوں کی طاقت کا مرکز کہلاتا ہے۔ دوسرا حصہ اس کثیر النسلی شمالی افغانستان اور ملک کے مغربی علاقوں پر مشتمل ہونا چاہئے، جہاں مقابلتاﹰ کم خونریزی دیکھنے میں آتی ہے اور جہاں امریکہ اپنےہم خیال اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر مستقبل میں مناسب تعداد میں فوجی دستوں کی مدد سے موثر ثابت ہونے والے اڈے قائم کر سکتا ہے۔

NO FLASH Wikileaks Afghanistan
وکی لیکس کی شائع کردہ خفیہ دستاویزات نے تہلکہ مچا دیاتصویر: picture alliance / dpa

روبرٹ بلیک وِل کے مطابق اس طرح افغان حکومت اور امریکی سربراہی میں غیر ملکی فوجی طاقتوں کے لئے ریاستی دارالحکومت کابل سے افغانستان کو اچھی طرح کنٹرول کرنا ممکن ہو جائے گا۔

روبرٹ بلیک وِل نے، جو ماضی میں امریکہ میں جارج ایچ ڈبلیو بش اور جارج ڈبلیو بش، دونوں رہنماؤں کے صدارتی ادوار میں واشنگٹن میں قومی سلامتی کے ذمہ دار ایک اعلیٰ عہدیدار رہ چکے ہیں، یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ افغانستان کی یہ تقسیم داخلی ہو گی نہ کہ اس کا مقصد اس ملک کی قومی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین ہو گا۔

اپنے اس کالم کے بعد، جسے امریکہ میں بڑی توجہ سے پڑھا گیا اور جس پر شدید بحث بھی ہوئی، سالہا سال تک امریکہ کے دو ریپبلکن صدور کے بہت قریب رہنے والے سلامتی امور کے اس امریکی ماہر نے گزشتہ ہفتے برطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز میں بھی ایک تفصیلی مضمون لکھا۔ اس مضمون میں روبرٹ بلیک وِل نے اعتراف کیا کہ افغانستان کی ایسی کوئی بھی ’ڈی فیکٹو تقسیم‘ اس ملک میں امریکہ کی دس سالہ موجودگی کا بڑا ناامید کر دینے والا نتیجہ ہو گی۔

Afghanistan Karte
جنوبی افغانستان میں طالبان کی طاقت کا زور ابھی تک نہیں ٹوٹاتصویر: Bundeswehr

تاہم ان کے بقول اس وقت افغانستان میں بہتر نتائج کے حصول کے لئے یہی وہ بہترین اور حقیقت پسندانہ راستہ ہے، جس پر ذمہ داری سے عمل درآمد ممکن ہے۔ اس امریکی ماہر نے لکھا کہ اس طرح کی کسی تقسیم کی صورت میں افغانستان میں پشتون علاقے کو عملاﹰ باقی ماندہ ملک سے علیحدہ کرنا کسی ایسی پیش رفت کا باعث نہیں بن سکتا کہ پاکستان کی ریاستی وحدت بھی خطرے میں پڑ جائے اور ایک وسیع تر خود مختار پشتونستان کے قیام کی بات کی جانے لگے۔ روبرٹ بلیک وِل کی رائے میں ایسا اس لئے نہیں ہوگا کہ تقسیم کی بات کرتے ہوئے وہ افغانستان کی بین الاقوامی سرحدوں میں کسی تبدیلی کی بات نہیں کر رہے۔

روبرٹ بلیک وِل کی طرح ایک اور نامور امریکی ماہر رچرڈ ہاس نے بھی گزشتہ ہفتے یہی بات کی کہ افغانستان میں غیر مرکزیت پسندی یا decentralisation کی پالیسی اپنائی جانی چاہئے۔

رچرڈ ہاس بھی بش سینیئر اور بش جونیئر کی حکومتوں میں وائٹ ہاؤس کے بہت قریب رہ چکے ہیں اور وہ گزشتہ عشرے کا زیادہ تر حصہ بہت بااثر سمجھے جانے والی خارجہ تعلقات کی کونسل کے صدر بھی رہے۔ رچرڈ ہاس نے گزشتہ ہفتے امریکی جریدے نیوزویک میں افغانستان اور افغان جنگ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا: ’’ہم جیت نہیں رہے۔ یہ کوئی اچھا سودا نہیں ہے۔‘‘

اپنے اس مضمون میں رچرڈ ہاس نے لکھا کہ امریکہ کو ہندو کش کی اس ریاست میں ایک مضبوط مرکزی حکومت اور منظم فوج کے قیام کی کوششو‌ں میں کمی کرتے ہوئے مقامی افغان رہنماؤں اور ان کے حامیوں کو اس طرح ہتھیار اور تربیت فراہم کرنی چاہئے کہ وہ القاعدہ اور شدت پسند طالبان کے خلاف جنگ میں مدد تو دے سکیں لیکن ہمسایہ ملک پاکستان کی حیثیت اور اہمیت کو دانستہ طور پر کم کرنے کے خواہش مند نہ ہوں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: کشور مصطفٰی