امریکہ میں چینی مصنوعات پر نئے محصولات اور اوباما کا دورہ چین
6 نومبر 2009امریکہ کا، صدر اوباما کے دورہء چین سے چند ہی روز پہلے کیا گیا یہ فیصلہ، دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں کس نئے کھچاؤ کا باعث بنا ہے۔
امریکہ ماضی میں بھی چینی درآمدات پر اچانک مختلف طرح کے محصولات عائد کرتا رہا ہے۔ بات ہر بار باہمی کھچاؤ تک پہنچی، اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ امریکہ نے اپنی منڈیوں میں، اپنی ہی مصنوعات کے مقابلے میں، بہت سستی چینی درآمدات کی بھرمار سے بچنے کے لئے جو نئے محصولات عائد کئے، وہ اگلے ہفتہ صدر باراک اوباما کے دورہ ء چین کے دوران اگر مرکزی موضوع نہ بھی بنے، تو اُن پر بات ضرور کی جائے گی۔
چین نے ان نئے محصولات کو سخت ناپسند کیا ہے، اور بدلے میں اپنے ہاں امریکی درآمدات پر محصولات کی موجودہ صورت حال پر نظر ثانی کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے لگائی گئی یہ تازہ ترین درآمدی ڈیوٹی سب سے زیادہ چین میں تیار کردہ فولاد اور اِس طرح کی کئی دیگر دھاتی مصنوعات کو متاثر کرے گی۔ ان چینی مصنوعات کی امریکہ میں گیس اور پٹرولیم کی صنعت میں بہت زیادہ مانگ ہے۔
اس درآمدی مانگ کو کم کرنے کے لئے امریکہ نے 2.63 بلین ڈالر کے نئے درآمدی محصولات عائد کئے جانے کی منظوری دی ہے۔ ماہرین چین امریکہ تجارتی تعلقات کے حوالے سے اس امر کو ایک بڑا قدم قرار دے رہے ہیں۔
چین کی طرف سے اس امریکی اقدام کے بعد یہ کہا گیا کہ واشنگٹن کی نئی درآمدی پالیسی میں بہتری کی ضرورت ہے، اور یہ اقدام چینی امریکی تجارتی رابطوں کے لئے حوصلہ افزا نہیں ہوگا۔
چین نے اس امریکی پالیسی کو واشنگٹن کی طرف سے اپنائے گئے دوہرے معیار کا ثبوت قرار دیا، اور کہا کہ بیجنگ بھی اب امریکہ میں تیار کردہ گاڑیوں اور اُن کے فاضل پرزوں کی درآمد پر عائد کئے گئے محصولات بڑھا دے گا۔
دنیا کی دو بڑی بہت معیشتیں کہلانے والے ان دونوں ملکوں کے مابین ابھی گزشتہ ہفتے ہی باہمی تجارتی امور کا احاطہ کرنے والا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا تھا۔ چین نے اس اجلاس میں بھی اپنا یہ مؤقف دہرایا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کی داخلی منڈی کو 2016 سے پہلے ہی ایک بہت بڑی اقتصادی منڈی تسلیم کیا جائے۔ اس مئوقف کی وجہ یہ ہے کہ تکنیکی طور پر چین دنیا بھر میں، کسی ایک ملک میں، صارفین کی سب سے بڑی منڈی ہونے کے باوجود ابھی تک ایک اہم اقتصادی منڈی کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ 2016 تک عالمی ادارہ تجارت کے رکن تمام ممالک باہمی طور پر بہت سے نئے تجارتی ضوابط اپنا لیں گے۔
رپورٹ : عبدالرؤف انجم
ادارت : مقبول ملک