1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کاخلائی پروگرام فنڈز کی کمی کا شکار

27 اکتوبر 2009

امریکہ میں خلائی پروگرام سے متعلق ماہرین کے ایک خودمختار پینل کی حتمی رپورٹ کے مطابق فنڈز کی کمی کے باعث امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا انسان برادار خلائی پروگرام مشکلات کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/KG2i
تصویر: dpa - Report

اس خودمختار پینل کی پیش کردہ 155 صفحات پر مشتمل رپورٹ کم وبیش اسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے جواس سے قبل اگست میں ایک پینل کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتائی گئی تھی۔

پینل کے سربراہ نارمن آگسٹین نے اس رپورٹ میں کہا کہ امریکہ کے انسان بردار خلائی پروگرام کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ سال دوہزار چار میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے Constellation یعنی ستاروں کا جھرمٹ نامی پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ امریکہ کی ایروسپیس کے سب سے بڑے ادارے لاک ہیڈ مارٹن کے سابق سربراہ اور امریکی فوج کے سابق انڈر سیکرٹری نارمن آگسٹین کے مطابق اس پروگرام کے مقاصد اتنے وسیع تھے کہ اب ناسا کوان پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

کانسٹلیشن پروگرام کا بڑا مقصد سن 2020ء تک دوبارہ چاند پر انسان بردار مشن اتارنے کے علاوہ مریخ تک پہلی انسان بردار پرواز کے لئے چاند پر ایک لانچ پیڈ کی تیاری بھی تھا۔

International Space Station ISS
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو 2015ء کی بجائے 2020ء تک برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔تصویر: picture alliance / landov

خیال رہے کہ امریکہ کے خلائی تحقیقی ادارے ناسا کا سالانہ بجٹ 18 ارب ڈالر ہے جس میں سے قریب 10 ارب ڈالر انسان بردار خلائی پروگرام پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس میں سے پھر زیادہ حصہ موجودہ خلائی شٹل کی جگہ لینے والے ایرس ون راکٹ اور خلابازوں کے لئے تیار کی جانے والی اورین خلائی گاڑی کی تیاری پر خرچ کیا جاتا ہے۔

آگسٹین کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ کانسٹلیشن پروگرام کے مقاصد پورے کرنے کے لئے ناسا کو مزید تین ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے تاکہ انسان بردار خلائی پرواز کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS سے آگے لے جایا جاسکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے انسان بردار خلائی پروگرام کا اصل مقصد انسان کو نظام شمسی کے دیگر سیاروں تک پہنچانا ہے۔ مزید یہ کہ اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دیگر اقوام کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

اس رپورٹ میں موجودہ خلائی شٹل کی جگہ لینے والے ایرس ون راکٹ کے غیر یقینی مستقبل پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ امریکی خلائی ادارہ ناسا منگل 27 اکتوبر کو فلوریڈا میں قائم کینیڈی اسپیس اسٹیشن سے اس راکٹ کی پہلی تجرباتی پرواز کا ارادہ رکھتا ہے۔

Mond über der Erdathmosphäre Flash-Galerie
امریکی خلائی پروگرام کے مطابق سال 2020ء تک چاند پر ایک مرتبہ پھر انسان بردار مشن بھیجا جانا ہے۔تصویر: DPA

اس کمیٹی نے اپنی مشاہدات پر مبنی پانچ تجاویز بھی مرتب کی ہیں جو کچھ اس طرح سے ہیں،

اسپیس شٹل:

موجودہ خلائی شٹل جس کو پروگرام کے مطابق 2010ء ستمبر کو ریٹائر کردیا جانا ہے اور جس کی اب صرف چھ پروازیں باقی رہ گئی ہیں، اس کو سال 2011ء کے وسط تک بڑھا دیا جائے تاکہ عملے کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

خلائی شٹل کے بعد کا وقت:

کمیٹی کے اندازوں کے مطابق موجودہ خلائی شٹل کی جگہ لینے والے نظام کی حتمی تیاری سن 2017ء سے قبل ممکن نہیں ہے۔ موجودہ خلائی شٹل کی ریٹائرمنٹ کے بعد ناسا کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک خلابازوں کو پہنچانے کے لئے روسی سویُز Soyuz پروگرام پر انحصار کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ISS تک سامان کی ترسیل کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

خلا میں لے جانے والا راکٹ نظام:

نئی خلائی گاڑی اورین کو خلا میں لے جانے کے لئے مختلف نظاموں پر انحصار کیا جاسکتا ہے جن میں ایرس ون راکٹ کے علاوہ ایرس پانچ جو کہ زیادہ طاقتور اور بڑا ہے مگر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ خلائی شٹل کو خلا میں لے جانے والے راکٹ نظام کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

خلائی اسٹیشن ISS:

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی تیاری پر خرچ کی گئی رقم سے مناسب فائدہ اٹھانے کے لئے اسے 2015ء کی بجائے 2020ء تک برقرار رکھا جائے۔ اس سے خلائی تحقیق میں امریکی برتری کو برقرار بھی رکھا جاسکے گا۔

مریخ:

سرخ سیارہ انسانی خلائی پروگرام کا ایک بڑا مقصد تو ضرور ہے مگر صرف یہی واحد مقصدنہیں۔ چاند پر انسان کی واپسی اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS پروگرام کو سال 2020ء تک جاری رکھنا فی الحال زیادہ قابل عمل حکمت عملی ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : شادی خان