امریکہ کے ساتھ مذاکرات طالبان کے بغیر نہیں، حقانی گروپ
26 اکتوبر 2011حقانی گروپ کے ایک کمانڈر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان امن مذاکرات میں طالبان کا ہونا لازمی ہے۔ روئٹرز نے اس کمانڈر کا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔
عسکری گروہ حقانی گروپ کے کمانڈر کے بقول ان کا گروپ امریکہ کے ساتھ مذاکرت میں علیحدہ سے شریک نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا، ’’امریکہ کو اس وقت تک افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں ملے گا جب تک کہ وہ طالبان شوریٰ سے مذاکرات نہیں کرے گا۔‘‘
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے دورہء پاکستان کے موقع پر پاکستانی حکام پر زور دیا تھا کہ وہ حقانی گروپ کو امن پر قائل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ بیشتر امریکی اور بعض پاکستانی مبصرین کے مطابق پاکستانی حکام کا حقانی گروپ پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔
روئٹرز کے مطابق نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر حقانی گروپ کے اس کمانڈر نے کہا، ’’یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ نے ہم سے رابطہ کیا ہو۔ امریکہ اس سے قبل بھی ایسی کوششیں کر چکا ہے جسے ہم نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ہم ملا عمر کی قیادت میں طالبان کا ہی حصہ ہیں۔ ہم متحد ہیں اور ہمارا مقصد غیر ملکی طاقتوں سے اپنی سر زمین طالبان کو آزاد کرانا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان سے اپنی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا اعلان کر چکے ہیں۔ سن دو ہزار چودہ تک ان افواج کا مکمل انخلاء متوقع ہے تاہم افغانستان میں امن ہنوز قائم نہیں ہو سکا ہے۔ امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ طاقت کے استعمال کے ساتھ بعض عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا راستہ بھی ہموار کیا جائے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو سکے۔
رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد