امریکہ کے ساتھ معاملات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے، گیلانی
29 نومبر 2011وزیر اعظم گیلانی نے یہ بات امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم اتحادی ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستانی عوام کی حمایت نہایت ضروری ہے: ’’ہمیں عوام کی حمایت چاہیے، ایسے واقعات عوام کو ہم سے دور لے جارہے ہیں۔‘‘
جب پاکستانی وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ بہت سارے پاکستانی اب امریکہ سے تنگ آچکے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب بہت ہوگیا تو کیا پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں، تو وزیر اعظم گیلانی نے دوبارہ کہا، ’’میں کہہ رہا ہوں کہ امریکہ کے ساتھ معاملات معمول کی طرح نہیں رہیں گے، اس لیے ہمیں کوئی ایسی بڑی چیز چاہیے ہوگی جو تمام ملک اور قوم کو مطمئن کرسکے۔‘‘ انٹرویو میں وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ آپ کے ملک کو کون سی چیز مطمئن کرے گی اور اس حوالے سے آپ کیا چاہتے ہیں، تو وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ اس پر پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی غور کر رہی ہے۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے امکانات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں گیلانی نے کہا کہ اس پر از سر نو غور ہورہا ہے اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہی واشنگٹن سے تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پاکستانی فوجی اہلکار کی جان اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کسی بھی ملک کے فوجی کی۔ وزیر اعظم گیلانی نے افغانستان میں قیام امن سے متعلق اگلے ماہ جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے بائیکاٹ کا بھی عندیہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کو وہ عزت و احترام نہیں دیا جارہا جو تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے قبل پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے نگران میجر جنرل اطہر عباس کہہ چکے ہیں کہ نیٹو کی اس کارروائی سے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے تعاون پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت ہاٹ لائن کے ذریعے نیٹو سے رابطہ کیا گیا تھا تاہم پھر بھی فضائی کارروائی نہیں روکی گئی۔
پاکستان اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات میں اب ایک نیا پہلو بھی نمایاں ہونے لگا ہے۔ چین اور روس نے نیٹو کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب نیٹو، اعلی امریکی حکام اور جرمنی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دے چکے ہیں۔ امریکی جریدے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیٹو کی کارروائی پاکستانی افواج کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے دفاع میں ایک جوابی کارروائی تھی۔ پاکستان اس رپورٹ کو رد کر چکا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: شامل شمس