1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اسرائیلی وفد مراکش کے تاریخی دورے پر

22 دسمبر 2020

مراکش کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے سرکاری اعلان کے دو ہفتے بعد منگل کو ایک امریکی اسرائیلی مشترکہ وفد مراکش کے لیے روانہ ہو گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/3n2dk
Israel VAE Normalisierung erster Flug
تصویر: Getty Images/AFP/J. Guez

اس اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور ان کے سینیئر مشیر جیرڈ کشنر اور اسرائیل کے قومی سلامتی کے امور کے مشیر مئیر بن شبات کر رہے ہیں۔ یہ دونوں مراکش کے بادشاہ شاہ محمد ششم سے ملاقات کریں گے۔ اس اقدام کو مراکش کے اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے قيام کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ بین گوریون ہوائی اڈے سے پرواز سے قبل جیرڈ کشنر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے پاس متعدد معاہدے ہیں، جنہیں ہم اپنے اس دورے کے دوران پايہ تکمیل تک پہچانا چاہتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے اس دورے سے امن کی راہ ہموار ہوگی۔‘‘

اس موقع پر مراکش کے لیے روانہ ہونے والے وفد کے شریک قائد اور اسرائیل کے قومی سلامتی سے متعلق امور کے مشیر مئیر بن شبات نے کہا، ''ہماری نگاہوں کے سامنے تاریخ رقم ہو رہی ہے۔‘‘ یروشلم میں قائم امریکی سفارت خانے کے مطابق یہ اسرائیلی ایئر لائن 'ال آل‘ کی مراکش کے لیے پہلی براہ راست فلائٹ ہے۔

Bildcombo I Benjamin Netanyahu ,Donald Trump, König Mohammed VI
بنجمن نیتن یاہو،ڈونلڈ ٹرمپ اور مراکش کے بادشاہ شاہ محمد ششم

گزشتہ کچھ عرصے ميں یہودی ریاست اسرائیل کو عرب ریاستوں کی طرف سے پہلی بار تسلیم کیا گیا۔ ان میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش شامل ہیں۔ اسرائیل نے اگست میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ امریکی ثالثی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ تاریخ ساز معاہدہ رواں سال 13 اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین طے پایا تھا، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہو گئے ہیں اور ان دونوں ریاستوں کے وفود بہت جلد سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں کا سلسلہ اور سفارتکاروں کی تعيناتی جيسے اہم ترین امور سے متعلق معاہدوں پر بھی دستخط کریں گے۔

اُدھر بہت سی عرب ریاستوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اُس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گی جب تک اسرائیل کا فلسطین کے ساتھ امن معاہدہ طے نہ پا جائے تاہم حالیہ دنوں میں اس خطے میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال اور علاقائی سیاست کے نئے محرکات نے صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

USA I Benjamin Netanyahu, Donald Trump, Abdullah bin Zayed Al-Nahyan
امریکی ثالثی میں ابراہیمی معاہدے پو دستخط۔تصویر: Saul Loeb/AFP

دریں اثناء مراکش نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ معاہدے کا اعلان کر دیا جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا افریقہ کے متنازعہ مغربی صحارا کے علاقے میں مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کر لے گا۔ یہ اقدام کئی دہائیوں پر محیط امریکا کی پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی حیثیت رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ مراکش نے 1975ء میں اسپین سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد مغربی صحارا کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور اس کے فاسفیٹ سے مالا مال علاقے کو اپنی عمل داری میں لینے کا دعوی کر دیا تھا جبکہ الجزائر کی حمایت یافتہ پولیساریو فرنٹ موومنٹ علاقے کی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے۔

ک م/ ع س) ایجنسیاں(

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں