1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس، ’پاکستانیوں کا غصہ‘

23 فروری 2011

امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں منظر عام پر آنے والی نئی معلومات سے نہ صرف پاکستانی عوام کے غم وغصے میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی کا بھی پتہ چلتا ہے۔

https://p.dw.com/p/10MAB
تصویر: AP

پاکستانی اور امریکی میڈیا میں یہ رپورٹس شائع ہوچکی ہیں کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید امریکی اہلکار امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے وابستہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارتی اہلکار ہے اور اسے استثنیٰ حاصل ہے۔ دوسری جانب پاکستانی وزارت خارجہ نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ آخر ڈیوس کی سفارتی حیثیت کیا ہے۔؟

In Pakistan inhaftierter US Diplomat Raymond Allen Davis
جماعت اسلامی کے مطابق ریمنڈ ڈیوس پر جاسوسی کا مقدمہ بھی چلایا جانا چاہیےتصویر: AP

پاکستانی مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مقتولین کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو علم ہے کہ گرفتار امریکی خفیہ ایجنسیوں اور بلیک واٹر جیسی فرم کے ساتھ کام کرتا رہاہے۔ حکومت کو یہ ساری باتیں واضح طور پر بتانی چاہئیں۔

ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے محمد فہیم کے بھائی محمد وسیم کا کہنا ہے، ’ڈیوس معافی کے قابل نہیں ہے۔ ہمیں پہلے دن سے علم ہے کہ وہ سی آئی اے اور بلیک واٹر کے لیے کام کر رہا تھا۔ ڈیوس جیسے لوگ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور سزائے موت دی جانی چاہیے۔‘

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پیر کی اشاعت میں لکھا کہ ڈیوس سی آئی اے کے اُس آپریشن کے لیے کام کر رہا تھا، جس کا مقصد پاکستان کے مشرق میں لشکر طیبہ جیسی اسلامی انتہا پسند تنظیموں سے باخبر رہنا ہے۔

اس اخبار کے مطابق ڈیوس سی آئی اے کا اہلکار ہے اور بلیک واٹر کے ساتھ بھی کام کرتا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق بلیک واٹر سے ہے یا وہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے یا وہ کوئی اور ہے، ان حقائق سے پردہ اٹھانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان میں دائیں بازو کے مذہبی گروپ جماعت اسلامی کا کہنا ہے، ’ڈیوس کا معاملہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہیے اور اسے پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔‘

جماعت اسلامی کے مطابق اس پر جاسوسی کا مقدمہ بھی چلایا جانا چاہیے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں