امریکی ثالثی قبول نہیں ہے، محمود عباس
15 جنوری 2018فلسطینی علاقے ویسٹ بیینک کے شہر راملہ میں فلسطینی سینٹرل کونسل کے اجلاس میں محمود عباس نے اپنی طویل تقریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امن کے نام پر اس صدی کا ایک ’طمانچہ‘ قرار دیا ہے۔ فلسطینی سینٹرل کونسل کا دو روزہ اجلاس اتوار کے روز سے شروع ہے۔ اس اجلاس میں اسلام پسند فلسطینی تنظیم حماس نے شرکت نہیں کی ہے۔
فلسطین کے لیے فنڈنگ کی کمی، امريکا اور اسرائيل حامی
امریکی صدرنے فلسطینیوں کی امداد کم کرنے کی دھمکی دے دی
یروشلم کے کسی بھی حصے سے ممکنہ اسرائیلی دستبرداری اب مشکل تر
امریکی فیصلہ: ایک سو برس بعد فلسطینیوں پر ایک اور کاری وار
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اپنی تقریر میں یروشلم کو امریکی صدر کی جانب سے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کی ایک مرتبہ پھر شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن کی کوششوں میں امریکی ثالثی قبول نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے اس عمل کے لیے بین الاقوامی قیادت میں امن کوششیں شروع کرنے کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
اس اجلاس میں عباس نے تقریر کرتے ہوئے اوسلو معاہدے کے حوالے سے کہا کہ اسے اسرائیل نے تہس نہس کر دیا ہے کیونکہ وہ مسلسل مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔
عباس نے اپنی تقریر میں اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین اور اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نِکی ہیلی پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے باعثِ تحقیر قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین اور نکی ہیلی اسرائیل کے پرجوش حامی خیال کیے جاتے ہیں۔
فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ کونسل کے اجلاس میں تمام آپشنز پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ کونسل کا خصوصی اجلاس پیر پندرہ جنوری کو اپنی سفارشات کے ساتھ ختم ہو گا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ آیا اس کونسل کی مرتب کردہ سفارشات تمام فلسطینیوں حلقوں اور خاص طور پر حماس کو منظور ہوں گی۔
فلسطینی سینٹرل کونسل کو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا سب سے اہم اور مرکزی پالیسی ساز عضو تصور کیا جاتا ہے۔ اس کونسل کا خصوصی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کے تناظر میں طلب کیا گیا ہے۔