امریکی حملہ: پاکستانی فوج پر اندرون ملک تنقید
5 مئی 2011بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان میں اوباما کی رہائش پر اسلام آباد حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دباؤ کا سامنا ہے۔ تاہم اندرون ملک بھی فوج پر جسے بالعموم قَدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اب تنقید کی جا رہی ہے۔
پاکستان جیسے عدم استحکام کے شکار ملک میں کسی بھی طرح کے بحران کے حل کے لیے سیاستدانوں کو بدعنوان تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس فوج کو ایک مؤثر ادارے کی حیثیت ہے۔ لیکن اب سیاسی جماعتوں اور شہریوں نے فوج کے کردار پر مشکل سوال اٹھائے ہیں۔
وہ پوچھ رہے ہیں کہ عسکری علاقے میں ہونے والے امریکی کمانڈو آپریشن سے فوج کیسے بے خبر رہی؟ دوسری جانب امریکہ جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے علاقےمیں اسامہ کی رہائش سے باخبر تھا یا نہیں؟
پاکستانی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین کا کہنا ہے، ’ہر پاکستانی یہ جاننا چاہتا ہے کہ آزاد اور خودمختار ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کیسے ہوئی۔ حملہ ہوا، لوگ مارے گئے اور غیرملکی حملہ آور حفاظت سے فرار ہو گئے، ہماری ایجنسیوں کو خبر بھی نہ ہوئی۔‘
سابق کرکٹ اسٹار اور سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے، ’پاکستان میں محض شش و پنج کی فضا ہی نہیں پائی جا رہی بلکہ قومی وقار اور خودمختاری کھو دیے جانے پر مایوسی کا عالم ہے۔‘
معروف ٹیلی وژن اینکر پرسن کامران خان کا کہنا ہے، ’ایسے واقعے کے بعد اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہماری اسٹریٹیجک املاک اور سکیورٹی تنصیبات محفوظ ہیں۔’
پاکستان میں بن لادن کی ہلاکت کے خلاف محدود پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ایبٹ آباد میں خواتین ڈاکٹروں نے بھی محدود نوعیت کا مظاہرہ کیا، جس میں فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر فوج کے لیے یہ نعرے درج تھے، ’جاگو‘ اور ’قومی فخر کہاں ہے؟‘
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان