1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان ثالثی کے لیے سعودی عرب اور ایران جا سکتے ہیں

10 اکتوبر 2019

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان امریکا کی طرف سے تہران اور ریاض کے مابین پائے جانے والے تنازعے میں ثالثی کی درخواست پر ایران اور سعودی عرب کے دورے کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3R2vp
اس سال جولائی میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران کی ملاقات کی ایک تصویرتصویر: picture-alliance

اسلام آباد سے جمعرات دس اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے آج صحافیوں کو بتایا کہ کافی زیادہ امکان ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ممکنہ طور پر جلد ہی ہمسایہ ملک ایران اور خلیج کی عرب بادشاہت سعودی عرب کے دورے کریں گے۔ اسلام آباد کی طرف سے چند ہفتے قبل ہی کہا گیا تھا کہ واشنگٹن نے پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ تہران کے ساتھ رابطوں کے سلسلے میں اپنی طرف سے ثالثی کوششیں کرے۔

اس بارے میں محمد فیصل نے صحافیوں کو بتایا، ''اس بات کا کافی زیادہ امکان ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عنقریب ہی سعودی عرب اور ایران کے دورے کریں گے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نئی پیش رفت کی تفصیلات بروقت جاری کر دی جائیں گی۔‘‘

روئٹرز نے لکھا ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے آج کے اس اعلان سے قبل عمران خان نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں درخواست کی ہے کہ وہ تہران اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی میں کمی کے لیے کوششیں کریں۔

Saudi-Arabien Drohnenangriffe
سعوی عرب اور امریکا نے سعودی تیل تنصیبات پر چودہ ستمبر کے حملوں کا الزام ایران پر لگایا تھاتصویر: Reuters

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز ایک نیوز بریفنگ میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر کوئی بھی تبصرہ نہ کیا کہ آیا عمران خان کے ایران اور سعودی عرب کے آئندہ ممکنہ دوروں کا تعلق امریکا کی طرف سے کی گئی ثالثی کی درخواست سے ہے۔

ایران اور امریکا کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کے علاوہ ان دنوں ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی کشیدگی عروج پر ہے۔ اس نئے تناؤ کی وجہ سعودی عرب میں چودہ ستمبر کو تیل کی انتہائی اہم تنصیبات پر کیے جانے والے وہ ڈرون اور میزائل حملے بنے تھے، جن کی ذمے داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کر لی تھی۔

ان حملوں کے بارے میں تاہم امریکا اور سعودی عرب کا الزام یہ تھا کہ ان کے پیچھے ایران کا ہاتھ تھا۔ لیکن ایران نے اپنے خلاف ان الزامات کی اسی وقت بھرپور تردید کر دی تھی۔

م م / ش ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں