امریکی صدارتی امیدوار، یورپ کے تناظر میں
31 اکتوبر 2008امریکی صدارتی امیدواروں کے بارے میں یورپ میں پائے جانے والے خیالات کے حوالے سے برسلز سے ارمٹراؤرچرڈسَن کا تبصرہ:
يورپی يونين کے ملکوں ميں عوامی رائے کے سروے سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے عوام کی اکثريت اوباما کی حامی ہے۔ دوتہائی صنعتکار بھی رياست الينوائے سے تعلق رکھنے والے افریقی امريکن اوباما کے حق ميں ہيں تاہم يورپی يونين کا رويہ اس بارے ميں محتاط ہے۔ يورپی کميشن کے نائب صدر، جرمی کے Günter Verheugen نے کہتے ہیں: ’’ہميں يورپيوں کی حيثيت سے يہ سمجھنا چا ہئے کہ امريکہ ميں نئےصدرکےمنتخب ہونے سےاس ملک کے بنيادی دفاعی حربی اوراقتصادی مفادات تبديل نہيں ہوجائيں گے۔‘‘
اُنہوں نے ڈيموکريٹ اميدواراوباما سے بہت زيادہ اميديں قائم کرنے کے بارے ميں محتاط اندازاختيارکيااورکہا: ’’ بہت سےيورپی اوباما سے بڑی اميديں قائم کئے ہوئے ہيں۔ ميں ذرا زيادہ واضح طورپريہ جاننا چاہوں گا کہ ہم اگلی امريکی حکومت سے کيا توقع کرسکتے ہيں۔‘‘
يورپی يونين کے لئے خارجہ سياست کی بہت اہميت ہے، ليکن امريکہ کی، بہت زيادہ جذباتی انتخاباتی مہم ميں ابھی تک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بہت کم ہی ٹھوس باتيں سننے ميں آئی ہيں۔ يورپی يونين کے لئے تجارت بھی بہت اہم ہے اورڈيموکريٹس کے بارے ميں مشہور ہے کہ وہ قومی معيشت اورصنعت کے تحفظ اورترقی کے لئے اپنی داخلی منڈی زيادہ کھولنا نہيں چاہتے۔ يہی، باراک اوباما کے بارے ميں بھی کہا جاسکتا ہے۔ جرمنی کی سياسی جماعت ايف۔ ڈی۔ پی کے گراف لامبسدورف کا کہنا ہے کہ عالمی تجارت اوراقتصادی سياست کے لحاظ سے ، يورپ کے لئےمک کين، اوباما کے مقابلے ميں بہت زيادہ بہتررہتے۔
جارج بش کے دورميں اہم سياسی مسائل پريورپ اورامريکہ کے درميان اکثر اختلاف رہا مثلا روس کے ساتھھ تعلقات، ايران کا مسئلہ، عراق کی جنگ يانيٹوميں توسيع کے بارے ميں يورپ کی رائے اکثربش حکومت سے مختلف رہی ۔
برسلز ميں يہ کہا جا رہا ہے کہ امريکہ کا نيا صدرخواہ کوئی بھی ہو، وہ يورپ کے لئے ايک آسان ساتھی نہيں ہو گا۔